بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ، وزارت داخلہ کو جے آئی ٹی بنانے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کو بچوں کی اسمگلنگ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی ہدایت کردی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکام کو جے آئی ٹی کے ذریعے معاملے کی تحقیقات کا بھی حکم دیا کیونکہ اغوا کے بعد تین بار فروخت کی گئی ایک کم عمر لڑکی کا مقدمہ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کے گروہ بلاروک ٹوک مکمل آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور کی زیر سربراہی سنگل رکنی بینچ نے عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی کی سربراہی کرنے والے ایس ایس پی سٹی کے ساتھ ساتھ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کے متعلقہ حکام کو 9 جنوری 2023 کو پیش رفت رپورٹس سمیت طلب کر لیا۔
بینچ نے یہ ہدایات مبینہ طور پر ایک نابالغ لڑکی کو زبردستی شادی کے لیے اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار شخص کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران جاری کیں۔
عدنان شبیر نے موقف اپنایا کہ اس نے 14 سالہ لڑکی سے نکاح نہیں کیا، دوران سماعت لڑی اپنی والدہ کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دراصل وہ سونیا نامی لڑکی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے عمان سے آیا تھا اور سٹی کورٹ میں نکاح نامے پر دستخط کیے گئے تھے۔
بینچ نے اپنے حکم میں نوٹ کیا کہ اگرچہ متاثرہ لڑکی نے جبری شادی یا ریپ سے متعلق کوئی براہ راست الزام نہیں لگایا لیکن یہ سنگین نوعیت کا کیس تھا اور انسداد ریپ آرڈیننس 2020 کی دفعہ 9 (2) کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کو اس وقت سے نوٹس دیا جا رہا تھا جب سے متاثرہ کو اغوا کر کے تین جگہوں پر فروخت کیا گیا اور بالآخر وہ اغوا کاروں کی قید سے فرار ہو کر اپنے گھر پہنچ گئی۔
متاثرہ لڑکی نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ اس نے ایک خاتون رفعت کے گھر میں تقریباً 15 نوعمر لڑکیوں کو دیکھا تھا، مذکورہ خاتون کو مقدمے میں اغوا کاروں میں سے ایک کے طور پر بھی نامزد کیا گیا تھا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ وفاقی وزارت داخلہ ایف آئی اے قوانین کے تحت قابل افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دے گی، اس کے علاوہ محکمہ داخلہ، صوبہ سندھ کی طرف سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی انسانی اسمگلنگ بالخصوص نابالغ بچوں کی اسمگلنگ کے معاملے کی تحقیقات کرے گی اور اس مقدمے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایسے گینگ بغیر کسی مداخلت کے کام کر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان کو لگام ڈالنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
بینچ نے درخواست گزار کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔
بینچ نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو متاثرہ لڑکی کا نام شائع کرنے سے بھی روک دیا۔