ایک تھا پنہوں: جس کے لیے زندگی عبث سے کم نہ تھی!
یہ کتنا حیرت انگیز ہے کہ ایک آسمان کے نیچے اور ایک زمین کی سطح پر اربوں انسان بستے ہیں اور ہر انسان کی اپنی ایک الگ دنیا ہے جو اس کے دل، دماغ اور آنکھوں میں بستی ہے۔ جس طرح انگوٹھے کی بیضوی دائرے میں کھنچی لکیریں کسی اور سے نہیں ملتیں بالکل اسی طرح کسی کے بھاگ بھی کسی دوسرے سے نہیں ملتے ہیں۔
ہم جب کہتے ہیں ہر وجود میں ایک الگ کائنات بستی ہے تو کتنا عجیب ہے کہ اپنی الگ الگ کائنات ہونے کے باوجود ہم خاندانوں اور معاشروں میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔کبھی کبھار ہم ایک دوسرے کا درد بھی بانٹ لیتے ہیں۔ مگر کچھ انسانوں کی کائناتوں کے دکھ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ چاہنے کے باوجود بھی نہیں بانٹے جاسکتے کہ ہر وجود کی تمناؤں، خوشیوں، درد اور تکلیفوں کی جو گٹھری اس کے سر پر لاد دی گئی ہے وہ دنیا میں آنے پر پہلی بار آنکھ کھولنے سے اور آخری بار آنکھ بند ہونے تک فقط اسی کو اٹھانی ہے۔
میرے پاس پنہوں کی کچھ عام سی تصویریں ہیں۔ میرے پاس اس کا ایک پورٹریٹ بھی تھا جو میں نے 10 جنوری 2006ء کو صبح کے شاید 8 بجے اپنے کیمرے سے لیا تھا۔ شدید ٹھنڈ تھی اور شمال کی ہوائیں بڑی زور سے چل رہی تھیں۔ فیلڈ میں یہ ہمارا آخری دن تھا کیونکہ اگلے دن عید تھی اور ہمیں واپس کراچی لوٹنا تھا۔
اس کے کندھے پر بندوق تھی، ایک فیروزی رنگ کی لنڈے سے خریدی جیکٹ تھی اور گرم شال سے سر اور منہ لپیٹا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں 7، 8 پرندے تھے جو اس نے شکار کیے تھے اور چونکہ رات کو عید تھی تو شہر میں بیچ کر اسے عیدی کا سامان لینا تھا۔
وہ تصویر اچھی روشنی کی وجہ سے بڑی شاندار آئی تھی، مگر فی الوقت وہ فولڈر مجھے ڈھونڈے سے نہیں مل رہا، اس لیے وہ تصویر آپ تک نہیں پہنچا سکتا۔ اس وقت اس کی عمر 60 کے قریب قریب ہوگی اور وہ دن میں ایک، دو ڈبے سگریٹ کے پھونک لیتا تھا، مگر اس عمر میں بھی وہ ایسی ٹھنڈ میں پرندوں کا شکار کرتا تھا۔
بندوق سے پرندوں کا شکار خاص کر سردیوں میں اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ آپ جس جھیل یا کم پانی والے تالاب میں چھپ کر نشانہ لگاتے ہیں، فائر کرنے کے بعد آپ کو فوری طور پر اٹھ کر ایک دو فٹ کے یخ ٹھنڈے پانی میں ننگے پاؤں ڈیڑھ، 200 فٹ تک کے فاصلے میں زخمی پرندوں کو پکڑنے اور ذبح کرنے کے لیے دوڑنا پڑتا ہے۔ پنہوں یہ کر رہا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ صحت کے حوالے سے ٹھیک تھا۔ اُس دن اس کی گزری زندگی سے متعلق مختصر سی بات ہوئی اور ہم واپس کراچی لوٹ گئے۔
پھر 5 برس بعد میرا ساحلی پٹی کی جھیلوں اور وہاں بسے ماہی گیروں کے گاؤں کی طرف مسلسل جانا ہوا۔ اسی دوران نریڑی جھیل پر جب بھی میرا جانا ہوتا تو پنہوں سے میری کچہری ضرور ہوتی۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔
نریڑی جھیل کے جنوبی حصے کو جہاں سے پانی کا بہاؤ جاتا وہاں پر پُل بنا ہوا ہے، جس کے مشرقی پشتے سے جو جنوب اور شمال کی طرف جانے والا ایک راستہ ہے وہاں کبھی ماہی گیروں کے کئی خاندان بستے تھے۔ تو اس پُل کے مشرقی کونے کے بالکل شمال میں پنہوں کے ایک بیٹے کا گھر تھا جو اب بھی ہے اور اس گھر کی مغربی طرف یعنی سیم نالے کے کنارے پر پنہوں کی ایک گھاس پھوس کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی، جس کے اندر اس کی اپنی بنائی چارپائی پر اس کا بستر تھا اور وہ وہیں رہتا تھا۔
اس جھونپڑی سے تھوڑی دُور شمال میں بہاؤ کے کنارے لئی کے 2، 3 بڑے جھاڑ تھے جس کی اوٹ میں مسجد بنی ہوئی تھی۔ مٹی گارے سے فرش بنا ہوا تھا اور احاطے کے لیے 2، 3 فٹ کی لکڑیوں کو زمین میں گاڑ کر مچھلی کا پرانہ جال لگا دیا تھا اور اس طرح ایک مسجد بن گئی، کچھ لوگ اس میں نماز بھی ادا کرتے۔ کبھی کبھار نماز پڑھنے والوں میں پنہوں بھی شامل ہوتا۔ پھر کچھ برسوں کے بعد مسجد کی ترقی ہوئی تو لئی کی سوکھی جھاڑیوں کی ایک دیوار کھینچ دی گئی۔
2010ء میں ایسا اتفاق ہوا کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں میرا وہاں آنا جانا زیادہ ہوا تو اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتیں۔ پنہوں سب سے الگ اس لیے تھا کہ وہ کم بولتا اور جب بھی بولتا کوئی ہنسانے والی بات ہی کرتا۔ میں نے اسے کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ میں اکثر باتوں باتوں میں، جب بھی اس کے گزرے دنوں سے متعلق پوچھتا تو اس کے چہرے پر سنجیدگی کی ایک تہہ سی بچھ جاتی، بالکل ایسے جیسے کوئی بچہ ہنس رہا ہو اور آپ اس کو تھوڑا سا ڈانٹ دیں تو اس کے چہرے سے ہنسی فوری طور پر غائب ہوجاتی ہے اور وہ سنجیدہ ہو جاتا ہے بلکہ سنجیدگی بھی نہیں کہنا چاہیے، ایک ایسی کیفیت جس میں بے بسی اور بچارگی اوس کی طرح برستی ہے۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہتا اور پھر گزرے زمانوں کے موسم اس کے الفاظ اور جملوں میں زندہ ہونے لگتے۔
’ہم پیدا پانیوں کے کناروں پر ہوتے ہیں، ہمارے کان میں پہلی آواز ماں باپ کے ساتھ یا تو پانی کی لہر کی ہوتی ہے یا کسی پرندے کے چہکنے کی، ہمارے نتھنوں میں سب سے پہلی خوشبو پانی یا مچھلی کی آتی ہے۔‘
’پانی اور مچھلی کی خوشبو؟‘، میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ساتھی نے انتہائی دھیمے لہجے میں یہ جملہ ادا کیا جیسے اپنے آپ کو سُنا رہا ہو۔ مگر پنہوں کے کانوں تک یہ الفاظ پہنچ گئے۔ ایک اچھا شکاری ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کان اور نظریں تیز ہوں اور ساتھ میں مشاہدے کی حس بھی۔ اور پنہوں ایک اچھا شکاری تھا۔
’پانی کی بھی خوشبو ہوتی ہے۔ کبھی صبح کے ابتدائی پہروں اور ڈوبتے سورج کے وقت کسی نہر یا جھیل کے کنارے گہری سانس لے کر دیکھو، پانی کی مہک آپ کے جسم میں بھر جائے گی اور ہر مچھلی کی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ جس طرح ہر مچھلی کے سالن کا ذائقہ الگ ہوتا ہے بالکل ایسے ہی ہر مچھلی کی الگ خوشبو ہوتی ہے بلکہ ہر پرندے کی بھی اپنی الگ خوشبو ہوتی ہے۔ کرلو تجربہ میری آنکھیں کپڑے سے باندھ دو پھر مچھلی اور پرندے میرے آگے رکھو میں آپ کو بتاؤں گا کہ یہ کونسی مچھلی اور پرندہ ہے۔‘ پنہوں نے یہ باتیں ایک معصومیت کے ساتھ کہیں۔
’اچھا رات ہوجائے تو آپ پرندوں کا شکار کیسے کرتے ہیں؟‘، میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شہری بابو نے سوال کیا۔
’اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ بندوق کا شکار چاندنی راتوں میں اور جالوں سے پرندے پکڑنے کا شکار ان راتوں میں ہوتا ہے جب چاند جلدی نکلے اور جلدی ڈھل جائے یا دیر سے نکلے اور جلد سویرا ہوجائے۔ بندوق کے شکار کے 2 بہتر وقت ہوتے ہیں، ایک فجر سے سورج اُگنے تک اور شام کو اگر چاند ہے تو ساری رات، اگر چاند نہیں ہے تو سردیوں میں سورج ڈھلنے سے سورج کی سرُخی ختم ہونے تک۔ مگر جو تیز شکاری ہے وہ پانی میں پرندوں کے چلنے سے پرندے کو پہچان لیتا ہے، وہ اندھیری رات میں بھی رات8، 9 تک شکار کرسکتا ہے۔ مگر شدید ضرورت ہو تو، ورنہ اتنی محنت نہیں کرتے۔
’ایک دفعہ میرے پاس مہمان آئے، شام کے وقت۔ اب راتیں بھی اندھیری، لہٰذا میں بندوق لے کر سورج ڈوبنے سے کوئی آدھا گھنٹہ پہلے نکلا اور جاکر کھڈلانو (شکاریوں کی گھاس پھوس سے بنائی گئی شکار کے لیے جھونپڑی جس میں بیٹھ پرندوں کا شکار کے لیے انتظار کرتے ہیں، اس جھونپڑی کی زمین آدھے یا ایک فٹ تک نیچے کھود دی جاتی ہے، کہ ہلنے جلنے کو پرندہ دیکھ نہ سکے) میں جا بیٹھا۔ سامنے پانی کی تہہ بچھی تھی۔ کچھ دیر کے بعد 2 ’سان‘ (Grey Heron) پانی پر اتریں مگر وہ مجھ سے دور تھیں اس لیے شکار ممکن نہیں تھا۔ اب سورج ڈوب گیا۔ میں نے سوچا شکار بیکار ہے اور آج مہمانوں کو تلے آلو کھانے پڑیں گے۔
’سورج کی سُرخی بھی مرگئی تھی (یعنی ختم ہوگئی تھی) کہ اتنے میں نو ’پوراڑوں‘ (Eurasian curlew) کا ایک جُھنڈ آکر بالکل میرے سامنے اُترا۔ ان پرندوں کا رنگ زمین جیسا ہوتا ہے اور ان کو دیکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے، یہ ایک جگہ کم رکتے ہیں اور پانی میں اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں اور پانی میں ان کے چلنے کی ہلکی سی آوازیں آتی ہیں۔ آپ اگر اچھے شکاری نہیں ہوں تو پوراڑوں کا شکار کر ہی نہیں سکتے۔ اب میں نے ان کے اِدھر اُدھر بھاگنے کی آوازوں پر دھیان دیا، دُوری کا اندازہ لگایا، اپنی بندوق کا ’پَرا‘ (یعنی فائر کرنے کے بعد کارتوس سے نکلنے والے سیسہ کے چھرے کتنے دُور جاتے ہیں اور کتنے ایریا میں پھیلتے ہیں) سوچا اور فائر کردیا، 3 اُڑ گئے باقی 6 مہمانوں کی قسمت کے تھے۔‘ اس کے بعد پنہوں نے یہ بھی بڑے غرور سے بتایا کہ دُور تک شکار کرنے میں اس کی بندوق کا بڑا نام تھا۔
شکار کے اور بھی بہت سارے دلچسپ قصے پنہوں اکثر سناتا رہتا تھا۔ گزرے زمانوں کی کسک کا بھی اپنا سحر اور جادو ہوتا ہے جس کی جڑیں ہر انسان کی سوچوں میں ان بیلوں کی طرح اُگتی ہیں جن پر گزرے وقتوں کی یادوں کے شاندار رنگین میوے اپنی شیرینی سے اس قدر بھرے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو وقتاً فوقتاً نہ چکھا جائے تو کسک کی شیرینی ان سے ٹپک ٹپک کر بہتی ہے۔ ان کو چکھنے کی لذت اتنی ہوتی ہے کہ ہم کبھی اس سے جدا ہونا نہیں چاہتے شاید اس لیے کے یہ پل واپس نہیں لوٹیں گے اور دوسری بار ہم اس طرح اب کر نہیں پائیں گے۔ ایک کھو جانے کا درد اور دوسرا نہ ہونے کا غم ان میں سحر کی چاشنی بھر دیتا ہے۔
زندگی کے شب و روز ایسے گزرے کہ پنہوں کے گاؤں نہ جانا ہوا اور نہ کوئی رابطہ رہا۔ البتہ اس کا بیٹا جب آتا تو نریڑی کے حال احوال سے آگاہی ملتی رہتی۔ پھر تقریباً 6 برس کے بعد 2016ء دسمبر میں نئے برس کا استقبال کرنے کے لیے ہم نے نریڑی جھیل کے کناروں پر پروگرام رکھا۔ ہمارے دوستوں کے علاوہ مقامی ماہی گیر بھی آئے۔ ہم نے وہاں رات رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پروگرام ختم ہوا تو بہت سارے لوگ چلے گئے بس پنہوں اور 2، 3 بڑی عمر کے لوگ بیٹھے رہے۔ ہمارے شمال مغرب میں جھیل تھی جہاں سے شمال کی ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ مختلف پرندوں کی آوازیں بھی آتیں۔ سردی سے بچنے کے لیے ہمارے بیچ آگ کا الاؤ جل رہا تھا جس کو نئی پود Bonfire کے نام سے پکارتی ہے۔ اس رات پنہوں کچھ زیادہ خاموش تھا اور بس الاؤ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ انسان کا اندر بھی سمندر کے کنارے کی طرح ہے، کبھی پانی میں ڈوبا ہوا اور کبھی بالکل خشک۔
کچہری ہوتی رہی اور رات کے پہر بدلے تو کیفیتیں تبدیل ہوئیں۔ بڑی کوششوں کے بعد پنہوں اپنے خاموش رہنے کا سبب بتاسکا۔ سبب کیا تھا ایک درد کا زخم تھا جو اس کے اندر تکلیف کی جڑیں پھیلاتا جارہا تھا اور اسے یہ سب سہنا پڑ رہا تھا۔ اس نے اپنے اندر کی تکلیف اور درد کو کسی تان کی طرح چھیڑا۔
’میری شادی میری پسند کی تھی، 3 بچے ہوئے، 2 بیٹے اور ایک بیٹی۔ سب ٹھیک ہیں، اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ اللہ ان کو لمبی عمر دے۔ بچے بڑے ہوگئے، ہر کوئی اپنے گھر جابسا تو کچھ عرصے بعد بیوی کی طبیعت بگڑنے لگی۔ پہلے تو مقامی ٹوٹکوں سے علاج کیا، مگر افاقہ نہیں ہوا۔ اب غریب آدمی، شہر جائیں تو پیسوں کی تنگی۔ اپنا گزر پرندوں اور مچھلی پکڑنے پر، وہاں سے آئے وہاں سے گئے۔ آخر اللہ کا نام لے کر شہر کے سرکاری اسپتال میں داخل کروایا۔ ایک ماہ وہاں رہا اور وہ ایک ماہ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ وہ لوگ جو سردیوں کے موسم میں ہمارے پاس شکار کرنے کے لیے آتے اور جن کو ہم اپنا مہمان سمجھ کر لاکھوں عزتیں دیتے۔ اپنے کام کاج چھوڑ کر، سخت سردیوں میں ان کے لیے شکار کرتے، وہ جب ہمیں اسپتال میں دیکھتے تو ہاتھ کے اشارے سے ایسے سلام کرتے یا نظر چُرا کر نکل جاتے جیسے ہم ان سے کوئی قرضہ لینے آئے تھے۔ ان کے اس رویے نے بڑی تکلیف دی۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کوئی ایسا کیسے کرسکتا ہے؟
’بیوی کی طبیعت بگڑتی تو ہم کمپاؤنڈر کو کہتے کہ ڈاکٹر کو بلائے یا کوئی بوتل ووتل (ڈرپ) لگائے تو وہ اس طرح جھڑک دیتے جیسے ہم کوئی انسان نہیں تھے ان کے سامنے۔ سرکاری اسپتال کے باہر جہاں ہم رات کو سوتے وہاں بہت مچھر تھے۔ ہوٹل کا کیسا کھانا، اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ 3 وقت کھانا کھا سکتا، بس صبح کو تندور کی روٹی اور چائے اور پھر رات کو کوئی سبزی اور 2 تندور کی روٹیاں۔ وہ دن رات میں نے کیسے گزارے میرا رب ہی جانتا ہے، موت سے بھی بدتر۔
’پھر ایک ماہ کے بعد ایک رات 3 بجے میری بیوی نے مجھے آخری بار دیکھا اور آخری ہچکی لی تو جیسے میرے لیے دنیا میں کچھ نہیں بچا، سب ایسے جل گیا، جس طرح تپتے دنوں میں باریک گھاس کو آگ لگ جاتی ہے اور پیلی گھاس کی جگہ سیاہی رہ جاتی ہے، بس ایسا ہی کچھ ہوا۔ ایمبولینس کا کہا تو ایمبولینس کے تیل کے اتنے پیسے کہ میں وہ کہاں سے لاتا۔ لائین پر چلنے والی ڈاٹسن پر جنازہ لے جاکر مٹی کی امانت مٹی کے حوالے کی۔‘
میں نے محسوس کیا کہ وہ پنہوں جو میں نے پہلی بار 2006ء اور پھر 2010ء میں دیکھا تھا، وہ پنہوں زندگی کے ریگستان میں کہیں کھوگیا تھا۔ زندگی کبھی بھی آپ کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں کرتی چاہے آپ کوئی بھی ہوں۔ پھر چاہے گھر میں 2 روٹیاں پکانے کے لیے آٹا نہ ہو یا آپ نوٹوں کے بستر پر سوتے ہوں۔ پریشانیاں تو آپ کو ہر حال میں سہنی ہیں اور آپ کی آنکھوں سے نمک بھرے پانی کو تو بہنا ہی ہے۔
زندگی گھر کے اس سخت سربراہ جیسی ہے جو اگر آپ کو کہے کہ، ہلو ڈُلو مت اور سیدھے کھڑے رہو اور اگر آپ نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ پہلے آپ کو گلے سے پکڑ کر بڑے زور سے جھاڑتی ہے، پھر بھی آپ نے اس کا کہا نہیں مانا تو ایک زور کا تماچہ آپ کے نصیبوں کے گال پر پڑے گا۔ وہ کبھی کبھار اس بچے کو بھی خوامخواہ سزا دے دیتی ہے جس کا کوئی قصور نہیں ہوتا، جو ہلتا ڈلتا بھی نہیں ہے اور اس کی ہر بات مانتا ہے۔ پنہوں بھی اس بچے جیسا تھا جو اس کا ہر کہا مانتا تھا پھر بھی زیادہ درد کے چانٹے اس کے نصیبوں پر پڑے۔
پنہوں نے کانبھ (لمبی نشست کے لیے اجرک یا کپڑے کی چادر کو کمر اور ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر اس کو گانٹھ باندھ دیتے ہیں کہ آرام سے بیٹھ سکیں) کی گانٹھ کھولی، سفید بالوں میں ہاتھ پھیرا، سگریٹ کو جلتے الاؤ سے جلاکر مختصر سا کش لیا اور آگ کے لپکتے شعلوں کو دیکھتا رہا۔ پھر کبھی ہمیں دیکھتا اور پھر سَر کو گھما کر مغرب کی طرف جھیل کو دیکھتا، یا پھر اچانک پرندوں کا جُھنڈ تیز آواز کرتا گزرتا تو بے ساختہ آسمان کی طرف دیکھتا اور جو پرندے گزرے تھے دھیرے سے ان کا نام لیتا۔
پنہوں کی ساری عمر میں بُنی ہوئی طبیعت کو شہر کے رویوں نے اُدھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ ایک ماہ جو اس کے اسپتال میں گزرے اُس کا ہر پل پنہوں کو توڑتا رہا۔ وہ شاندار انسان جس کو کبھی غصہ نہیں آیا، جس نے ہر آنے جانے والے کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا، پرندوں کا شکار، جھینگے کا شکار، کیمپ کے لیے لکڑیوں کی فراہمی، مطلب اس کے یہ سارے عمل بے لوث تھے۔ اس میں اگر کچھ تھا تو پنہوں کے اندر کی خوشی تھی۔
جاڑے کی ساری رات ہم نے وہاں گزاری اور صبح کو ہم نے اجازت لی، پر وہ گرمجوشی جو پنہوں کے ملنے یا اجازت لینے کے وقت ہوتی تھی وہ اس سے شہری لوگوں کے مفاد پرستانہ رویے نے چھین لی تھی۔ آدمی سے جب اپنا اثاثہ چھن جائے تو خالی وجود رہ جاتا ہے بالکل کسی ایسی جزیرے کی طرح جہاں کبھی میلہ لگا ہوتا ہے اور پھر اچانک کوئی طوفان یا تیز آندھی آتی ہے اور اپنے ساتھ سب کچھ اکھاڑ کر لے جاتی ہے۔ بس جزیرہ رہ جاتا ہے اور خاموشی۔ پنہوں اس جزیرے کی طرح ہوگیا تھا۔
مجھے ایک برس پہلے پتا چلا کہ وہ 2019ء میں یہ جہان چھوڑ گیا۔ گوشت پوست کا انسان بہت کچھ سہہ سکتا ہے۔ ہر تکلیف یہ وجود سہہ لیتا ہے، مگر بے رخُی، بے قدری اور بیگانہ پن برداشت سے باہر ہوتا ہے، یہ سہن نہیں ہوتا ہے کہ سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس حد پر پہنچنے کے بعد تمنا کا کوئی بیج دل کی زمین میں سے نہیں پُھوٹتا، جب تمنا ہی نہیں تو انسان زیادہ جی نہیں سکتا۔
ہم شہروں میں رہنے والے لوگ تقریباً ایک مصنوعی زندگی ہی جیتے ہیں مگر خود کو دیہاتوں میں رہنے والوں سے معتبر سمجھتے ہیں۔ جب ان سے ہماراکام ہوتا ہے تو ہماری زبان سے شہد ٹپک رہا ہوتا ہے اور جب ان سے کام نکل جاتا ہے اور وہ جب شہر آتے ہیں تو ہم ان کو پینڈو، جاہل اور بیوقوف کے اعزازات دے کر ان سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سب ایسا کرتے ہوں مگر ایک بڑی تعداد ایسی ہی ہے۔
رویے لوگوں کو وقت سے پہلے مار ڈالتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کو رویوں اور الفاظ نے وقت سے پہلے تاریک قبر میں پہنچا دیا۔ ہمارے یہ رویے ایک منفی عمل اور مفاد پرستانہ سوچ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ہم یہ سب کرکے کوئی کمال نہیں کررہے بلکہ اپنی حیات کی گلیوں کے راستوں کو بند گلیوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کیکر کے بیج بوئیں اور تمنا کریں امرود کے درخت کی، ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
شہروں سے دیہاتوں تک جانے والی پگڈنڈیوں پر اب اگر ہم جائیں تو ہمیں ایسے منفی رویوں سے خود کو الگ کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے پاس پنہوں جیسے بہت زیادہ لوگ نہیں ہیں۔
اس لیے ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ آنے والے وقتوں میں ہم پر پنہوں جیسے شاندار، مہذب اور سچے انسان کی ایف آئی آر کبھی نہ کٹے کہ جس کی وجہ سے وہ سمجھنے لگیں کہ زندگی کہاں ہے خوبصورت؟ یہ تو ایک عبث ہی ہے۔۔۔!
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔