دنیا

امریکا : سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف جمال خاشقجی قتل کیس خارج

امریکی حکومت کی سعودی ولی عہد کو استثنی دینے کی سفارش نے بے چینی میں مبتلا کر دیا لیکن اس فیصلے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، جج

امریکی جج نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ان کے مبینہ کردار کے حوالے سے دائر مقدمہ خارج کر دیا۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن کے وفاقی جج جان بیٹس نے امریکی حکومت کے اس مؤقف کو تسلیم کیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کو غیر ملکی سربراہ مملکت کی حیثیت سے امریکی عدالتوں میں استثنیٰ حاصل ہے۔

جان بیٹس نے کہا کہ جمال خاشقجی کی بیوہ خدیجہ چنگیزی اورایک انسانی حقوق گروپ ’ڈان‘ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں ’مضبوط‘ اور ’قابل ستائش‘ دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس قتل کے پیچھے شہزادہ محمد بن سلمان کا ہی ہاتھ تھا۔

تاہم انہوں نے فیصلہ دیا کہ اس معاملے میں ان کے پاس 17 نومبر کو امریکی حکومت کی جانب سے جمع کروائے گئے اس سرکاری مؤقف کو مسترد کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے کہ شہزادے کو غیر ملکی سربراہ کی حیثیت سے استثنیٰ حاصل ہے۔

جج نے کہا کہ امریکی حکومت ہی سعودی عرب سمیت تمام خارجہ امور کی ذمہ دار ہے اور اس عدالت کی جانب سے محمد بن سلمان کو استثنیٰ دیے جانے کے خلاف کوئی بھی فیصلہ، ان ذمہ داریوں میں غیر ضروری مداخلت سمجھا جائے گا۔

جان بیٹس نے کہا کہ شہزادے کے خلاف قابل بھروسہ الزامات، اچانک وزارت عظمٰی کے عہدے پر ان کے تقرر کا وقت اور امریکی حکومت نے جس طرح انہیں استثنی دینے کی سفارش کی، اس سب نے انہیں بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے ناقدین میں شمار کیے جانے والے جمال خشوگی امریکا میں مقیم ایک صحافی اور سماجی کارکن تھے، انہیں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ استنبول میں سعودی قونصل خانے سے اپنی شادی کے لیے دستاویزات حاصل کرنے کے لیے اپنی منگیتر کے ہمراہ ترکی گئے تھے۔

قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد جمال خاشقجی کو سعودی حکومت کے ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے پکڑ کر قتل کر دیا اور ان کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ٹھکانے لگا دیا گیا۔

جمال خاشقجی کے قتل پر شہزادہ محمد بن سلمان کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں نے امریکی جج کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ میں مقیم ڈاکٹر اور سعودی انٹیلی جنس کے ایک سابق عہدیدار کے بیٹے خالد الجبری نے کہا کہ ’آج کا دن عالمی جبر کا شکار ہونے والوں کے لیے ایک سیاہ دن ہے‘۔

فیصلے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اختلاف رائے رکھنے والوں کو مزید خطرے میں دھکیل دیا ہے جبکہ آمروں کو اس بات کی یقین دہانی کروادی ہے کہ امریکا کی انسانی حقوق کی پالیسی دعووں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ایک سعودی عدالت نے 2020 میں جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں 8 افراد کو 7 سے 20 برس کے درمیان قید کی سزا سنائی تھی۔

گزشتہ برس جو بائیڈن انتظامیہ نے ایک انٹیلی جنس رپورٹ ڈی کلاسیفائی کی تھی جس کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے خلاف آپریشن کی منظوری دی تھی، تاہم اس دعوے کو سعودی حکام مسترد کرتے ہیں۔

جمال خاشقجی کے قتل نے امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں شدید تناؤ پیدا کردیا تھا۔

لیکن مشرق وسطیٰ کی سیاسی ضروریات، خصوصاً ایران کی جانب سے درپیش خطرات اور تیل کی منڈیوں پر سعودی عرب کی طاقت کے پیش نظر جوبائیڈن نے جولائی میں سعودی عرب کا دورہ کیا جس کا مقصد جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے کو جزوی طور پر ایک طرف رکھ دینا تھا۔

تاہم اس کے باوجود جو بائیڈن نے محمد بن سلمان کے ساتھ اپنی بات چیت میں اس قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ایک اشتعال انگیز واقعہ قرار دیا۔

اسمبلیوں کی تحلیل میں تاخیر، پی ٹی آئی کی حکمت عملی کمزور پڑنے کا امکان

لاہور میں خواجہ سراؤں کے پہلے اسکول کا افتتاح

امریکا کا کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ