لائف اسٹائل

’اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘ کے فاتحین اب کیا کررہے ہیں؟

اس مقابلے میں پہلے نمبر پر آنے والے فلم سازوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اپنی کامیابی کے سفر کی روداد سنائی۔

آنجہانی جاپانی مصنف اکیرا کروساوا نے کہا تھا کہ ’کسی تخلیق کار کا سب سے بہترین تعارف اس کا تخلیق کردہ کام ہوتا ہے‘۔ یہی بات ’اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘ پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ ڈان ڈاٹ کام اور ڈوئچے ویلے کے اشتراک سے ہونے والا مختصر فلموں کا مقابلہ ہے۔

’واہی‘، ’سیون ورٹیکل مائیلز، ’ان باؤنڈ بریتھ‘ اور ’صفِ اول‘ اس مقابلے میں گزشتہ 4 برس میں بہترین قرار پانے والی فلمیں ہیں، یہ فلمیں ہمیں ان پاکستانیوں کی زندگیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ ہیروز ہیں جو ہسپتال کی راہداریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک اور بلوچستان کی تاریک کانوں تک موجود ہیں۔

یہ کہانیاں جتنی بہترین اتنے ہی بہترین انہیں فلمانے والے بھی ہیں، چاہے اس کی وجہ ان کی محنت ہو، بے آواز لوگوں کی آواز بننے کا عزم ہو یا بچپن کا شوق پورا کرنے کا منفرد انداز۔

رواں سال اس مقابلے کے 5 سال مکمل ہورہے ہیں اور اس حوالے سے ہم نے گزشتہ مقابلوں کے فاتحین سے بات کی اور یہ جانا کہ وہ اب کن منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔

ارسلان ماجد— فلم ’واہی‘

ارسلان مجید نے حارث سہگل اور غلام عباس کے ساتھ مل کر فلم ’واہی‘ تیار کی تھی۔ یہ فلم اقبال نامی خاتون کسان کی کہانی ہے جو پاکستان کے پدرشاہی معاشرے کے دقیانوسی تصورات کو ختم کررہی ہیں۔

ارسلان کی پرو ڈکشن کمپنی اے ڈبلیو بی کے لیے پہلا انعام جیتنا ایک گیم چینجر تھا۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’مقابلہ جیتنے سے پہلے ہم صرف فلم کے شوقین لوگوں کا ایک گروپ تھے جو ایک بنیادی سا ڈی ایس ایل آر کیمرا لیے گھومتے تھے۔ ہم فیچر فلموں پر کام کرنا چاہتے تھے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ آغاز کیسے اور کہاں سے کیا جائے‘۔

لیکن ارسلان جوکہ بچپن سے ہی فلم ساز بننا چاہتے تھے، نے ہمت کرکے اس مقابلے کے لیے اپنی فلم داخل کردی۔

پیناسونک جی ایچ 45 اور ڈی جے آئی میوک پرو سے پنجاب کے دیہی علاقے میں فلمائی گئی یہ فلم اپنے بچوں اور اپنی فصل کے لیے ایک خاتون کی کوششوں اور محنت کی عکاسی کرتی ہے۔

ارسلان نے ہمیں بتایا کہ ’ہمیں یہ مقابلہ جیتنے کے بعد دنیا بھر سے جو پیار اور عزت ملی اس نے ہمارے لیے مزید کئی دروازے کھول دیے‘۔

فلم واہی دنیا بھر کے دیگر فلم فیسٹیول کے لیے بھی منظور ہوئی جن میں 2019ء میں پام اسپرنگز میں ہونے والا امریکن ڈاکومینٹری فلم فیسٹیول بھی شامل ہے۔ اسی سال اس فلم نے ممبئی میں فریمز فلم فیسٹیول میں بھی پہلا انعام حاصل کیا۔

ارسلان اور ان کی ٹیم کی پاکستان میں بھی پذیرائی ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس پذیرائی کے نتیجے میں ہمیں کئی منصوبے ملے اور ہم نے ملک بھر میں کئی صارفین کے لیے ڈاکومینٹری اور اشتہار تیار کیے‘۔ ان کے صارفین میں آغا خان یونیورسٹی اور ایس آئی یو ٹی جیسے ادارے بھی شامل ہیں۔

انہیں’ آزاد’ فلمز کے روح رواں جامی کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ ارسلان انہیں ’پاکستان کے بہترین فلم سازوں میں سے ایک‘ قرار دیتے ہیں۔ جامی اٹ ہیپنز اونلی ان پاکستان کے ججز میں بھی شامل تھے۔ ارسلان کے مطابق ’یہ سب کچھ کبھی ممکن نہ ہوتا اگر ڈان اور ڈی ڈبلیو ہمیں اپنا کام پیش کرنے کا موقع نہ دیتے‘۔

ارسلان اس فلم کے بارے بہت پُرجوش انداز میں بتا رہے تھے کہ کیسے انہیں دشوار گزار راستوں اور سخت موسم کا سامنا کرنا پڑا اور اسی سے فلم سازی کے حوالے سے ان کا جنون ظاہر ہورہا تھا۔

گزشتہ دو سال سے وہ اپنی پہلی طویل دورانیے کی فیچر فلم ’بییونڈ دی ویٹ لینڈز‘ کی شوٹنگ کررہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ پاکستان کی کوہ پیما برادری پر بننے والی پہلی پاکستانی فلم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے کے ٹو کے علاقے میں شوٹنگ کی ہے جہاں درجہ حرارت منفی 30 ڈگری تھا۔۔۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی فلم کریو نے کے 2 کے قریب ایک مکمل فلم شوٹ کی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری کاسٹ میں حقیقی کوہ پیما شامل ہیں جو پاکستانی کی بلند ترین چوٹیاں سر کرچکے ہیں‘۔ اس فلم کی پوسٹ پروڈکشن تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔

اگرچہ ابھی ان کی یہ فلم مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن ارسلان اور ان کی ٹیم نے اپنے اگلے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جوکہ ایک سائنس فکشن فلم ہے۔ اس بارے میں ارسلان نے کہا کہ ’اس وقت میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اس کا موضوع خلائی سفر ہوگا اور اس میں اس دنیا سے باہر کی زندگی کی کھوج ہوگی‘۔

ہم نے ارسلان سے اقبال مائی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہم وقتاً فوقتاً ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔ واہی کی ریلیز کے بعد وہ اپنے گاؤں کی مشہور شخصیت بن گئی ہیں جو اپنا وقت کھیتی باڑی اور خواتین کو با اختیار بنانے میں گزارتی ہیں اور انہیں گندم کی فصل کے بارے آگاہی دیتی ہیں‘۔


علی حیدر— فلم ’سیون ورٹیکل مائیل‘

ہمارے دوسرے مقابلے کا موضوع ’اوَر ڈائیورس پاکستان‘ تھا جس کی بنیاد پاکستان کا ثقافتی تنوع تھا۔ اس سال مقابلے کی فاتح علی حیدر کی فلم ’سیون ورٹیکل مائیل‘ تھی۔ یہ فلم بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کے خطرناک کام سے وابستہ ہزارہ برادری کے افراد کی کہانی ہے۔ ان افراد کو صرف زمین کے ہزاروں فٹ نیچے کام کرنے کا خطرہ درپیش نہیں ہوتا بلکہ یہ دہشت گردوں کے نشانے پر بھی رہتے ہیں۔

اس فلم میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والا آغا ایواز اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ’جب ہم گھر سے نکلتے تھے تو اپنے گھر والوں کو اس طرح الوداع کہتے تھے جیسے ہم ان سے آخری مرتبہ مل رہے ہوں‘۔ یہ بات وہ دل چھو لینے والے انداز میں کرتا ہے۔

اس فلم کا موضوع علی حیدر کے دل سے بہت قریب ہے۔ وہ خود بھی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وجہ سے فلم سازی کی جانب آئے کیونکہ وہ اپنی برادری کو درپیش مصائب دنیا کے سامنے لاسکیں۔ انہوں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور 2010ء میں کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں وہ زخمی ہوئے تھے۔ انہوں ڈان کو بتایا کہ ’میں شدید زخمی ہوا تھا۔۔۔ میں نے اس دھماکے میں اپنے والد اور کزن کو کھودیا تھا‘۔

لیکن وہ جتنے پرعزم ہیں اتنے ہی مضبوط بھی ہیں۔ انہوں نے مقابلے کے بارے میں بات کرنے سے قبل ہمیں بتایا کہ ’اپنی برادری کی آواز کو عالمی سطح تک پہنچانا میرے لیے اہم ہے‘۔ مقابلے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اس نے میری زندگی بدل دی‘۔

’یہ میری پہلی مختصر فلم تھی اور ملکی سطح پر انعام حاصل کرنا میرے لیے بہت اہم تھا۔ یہ فیسٹیول بہت دلچسپ اور میرے لیے بہت حوصلہ افزا تھا‘۔

حیدر علی نے بتایا کہ یہ مقابلہ جیتنے کے بعد انہیں اپنی وڈیوز پر آنے والے تبصروں سے مزید حوصلہ ملا۔ ان کے مطابق ’ناظرین کی طرف سے زبردست مثبت ردعمل ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈان نے میری فلم کو اپنا پلیٹ فارم دیا جس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے اسے سوشل میڈیا پر دیکھا۔ میں ویڈیو کے نیچے تبصرے پڑھتا تھا جو بہت حوصلہ افزا تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس جیت کی وجہ سے ملک بھر کے دیگر فلم ساز بھی ان کے رابطے میں آئے جن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے فلم ساز بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک چیز جو انہیں سب سے زیادہ یاد رہتی ہے وہ جنوری 2021ء میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے بعد اس فلم پر آنے والا ردعمل تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد بہت سے لوگوں نے میری فلم کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دیا اور مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ انہیں اس سے پہلے ان حالات کا احساس نہیں تھا جن میں یہ کان کن کام کرتے ہیں‘۔

علی اس مقابلے کے بعد سے مصروف ہی رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ میں نے حال ہی میں ہندوستانی اور پاکستانی فلم سازوں کے ایک منصوبے ’سیڈز آف پیس‘ پر کام کیا ہے جس کی فنڈنگ کراچی میں امریکی قونصلیٹ جنرل نے کی تھی’۔

ان کی ایک ڈاکومینٹری ’اسمال ٹائم سینما‘ رواں سال اورلینڈو فلم فیسٹیول کے لیے منتخب ہوئی اور اس نے 2 نامزدگیاں حاصل کیں۔ گزشتہ ماہ ہی وہ اس فیسٹیول میں شرکت کے لیے اورلینڈو، فلوریڈا گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہی نہیں بلکہ میں ایک ایرانی ہدایت کار کی فیچر لینتھ ڈاکومینٹری کے سنیماٹوگرافر کے طورپر بھی کام کررہا ہوں‘۔ حیدر علی ایک تجرباتی مختصر فلم پر بھی کام کررہے ہیں۔

علی نے ایک انتہائی ذاتی منصوبے کے بارے میں بتایا کہ ’میں اپنی پہلی فیچر ڈاکومینٹری پر بھی کام کررہا ہوں جو میری ذاتی کہانی پر مبنی ہے‘۔


عمر نفیس — فلم ’اَن باؤنڈ بریتھ‘

2020ء وہ سال تھا جب دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں تھی اور سماجی فاصلے کی پابندی رشتے داروں اور دوستوں کو ایک دوسرے سے دور کررہی تھی۔ کورونا وائرس کے حوالے اختیار کیے جانے والے حفاظتی اقدامات ہی اُس سال مقابلے کے موضوع ’کریٹو ڈسٹینسنگ‘ کی بنیاد بنے۔

اس سال عمر نفیس کی فلم ’ان باؤنڈ بریتھ‘نے پہلا انعام حاصل کیا۔ اس وقت لوگ جو کچھ محسوس کررہے تھے اس کا اظہار ایک کورونا وارڈ میں کام کرنے والی ڈاکٹر آمنہ بتول کی کہانی میں ہوتا ہے جو خود دمے کی مریض ہونے کے باوجود معاشرتی توقعات کو اپنے کیریئر کے انتخاب کے آڑے نہیں آنے دیتیں۔

ڈاکٹر آمنہ کی استقامت ایک طرح عمر نفیس کی کہانی بھی ہے جنہوں نے تیسری مرتبہ میں ’اٹ ہیپنز اونلی ان پاکستان‘ کا مقابلہ جیتا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’پہلی مرتبہ مجھے خصوصی انعام ملا، دوسری مرتبہ میں فائنلسٹ رہا اور تیسری مرتبہ میں جیت گیا‘۔

عمر نفیس لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے فلم اور ٹیلی ویژن گریجویٹ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’یہ انعام جیتنے سے قبل میں اپنی فلمیں بس اپنے دوستوں کو دکھاتا تھا اور انہیں ایک ہارڈ ڈرائیو میں محفوظ کرلیتا تھا۔

’انعام جیتنے کے بعد، بہت سے ڈاکٹروں نے مجھ سے رابطہ کیا اور فلم کی تعریف کی جو بہت حوصلہ افزا تھا [اور اس بات کا ثبوت تھا کہ] میری آواز سنی جا رہی تھی‘۔

وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ لوگ خود کو اس فلم سے جوڑ رہے ہیں۔ ’ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ان کی کہانی تھی اور فلم میں ان مسائل پر بات کی گئی جن کا انہیں سامنا تھا اور انہوں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ یہ حقیقت کہ میں اپنے کام کے ذریعے لوگوں سے جڑ رہا تھا، بہت حوصلہ افزا تھی‘۔

عمر بچپن سے ہی پڑھنے کے شوقین تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے واقعی بہت فلمیں نہیں دیکھی تھیں اور اس کے بجائے عمرو عیار اور الہ دین کی کہانیوں اور نونہال اور تعلیم و تربیت جیسے ڈائجسٹوں میں غرق رہتے تھے جس نے واقعی چیزوں کا تصور کرنے اور دیکھنے کی ان کی صلاحیت کو تقویت بخشی۔ پھر انہی صلاحیتوں کو انہوں نے اپنی فلم میں استعمال کیا جسے انہوں نے نیکون زیڈ 6 کیمرے پر شوٹ کیا۔

عمر اب بہت مصروف رہتے ہیں، وہ اس وقت جرمنی کی یونیورسٹی آف منسٹر میں ویژول انتھروپولوجی میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک ڈاکومینٹری سیریز ’ہَر‘ کے لیے بھی کام کررہا ہوں۔ یہ سیریز ایشیا میں تبدیلی کے لیے کام کرنے والی ایشیائی خواتین کے بارے میں ہے۔۔۔ میں اس کے لیے 6 اقساط پاکستان میں شوٹ کی ہیں‘۔

انہوں نے حال ہی میں آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے اور اسکاٹش ڈاکیومینٹری انسٹی ٹیوٹ کے لیے ’مائی مدرز ڈاٹر‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم شوٹ کی جو کہ بین الاقوامی سطح پر مقبول ہوئی۔

کچھ عرصے سے وہ توہین رسالت کے بارے میں ایک دستاویزی فلم ایڈٹ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں جس چیز پر بھی کام کرتا ہوں، چاہے وہ ڈاکومینٹری ہوں یا فلمیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ سب سے متعلق ہوں۔

’اگر ایک شخص بھی میری دستاویزی فلم سے متاثر ہوتا ہے یا اسے اپنے سوال کا جواب مل جاتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ میں اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو گیا ہوں۔ اب بھی میں جن پروجیکٹس پر کام کرتا ہوں وہ حقیقی زندگی سے متعلق [مسائل] ہیں، جو نظر انداز ہو جاتے ہیں۔

’میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ لوگوں کے پیشہ ورانہ یا ذاتی تجربات بغیر کسی ترمیم کے پیش کیے جائیں‘۔


افنان یوسف اور ریحان ظفر— فلم ’صفِ اول‘

2021ء میں ڈیرہ اسمٰعیل خان سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں، افنان یوسف اور ریحان ظفر نے ’اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘ مقابلہ جیتا جس کا موضوع ’ہوپ (ہیروز آف پاکستان ایڈیشن)‘ تھا۔

ان کی فلم ’صف اول‘ ایک ہیلتھ کیئر ورکر محمد اشفاق کی کہانی ہے جو لیب ٹیسٹ کے لیے کورونا کے مشتبہ مریضوں کے نمونے لیتا ہے۔ لیکن اس کی پیشانی پر معمولی سی شکن بھی نہیں پڑتی جبکہ وہ کینسر کا مریض رہ چکا ہے اور اس کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہے۔ افنان اور ریحان نے اس تنہا اور غیر یقینی دنیا میں اشفاق کی ہمت اور بے لوثی کی فکر انگیز عکاسی کی جس نے منصفین اور ناظرین دونوں کے دل جیت لیے۔

یہ دونوں تعلیم کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن فلم سازی کے ان کے شوق نے انہیں اپنا اسٹوڈیو ’کیپچر کریو‘ شروع کرنے پر مجبور کیا جو بنیادی طور پر شادیوں اور کارپوریٹ تقریبات میں کام کرتا ہے۔

افنان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’میں ہمیشہ سے فوٹوگرافر بننا چاہتا تھا اور میں نے اسے ایک شوق کے طور پر شروع کیا تھا لیکن آخر کار میں نے سینماٹوگرافی میں بھی دلچسپی لینا شروع کردی کیونکہ میں ہمیشہ سے فلمیں بنانا چاہتا تھا۔۔۔ تو ہاں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بچپن کا خواب تھا‘۔

یہاں تک کہ جب افنان تقریبات کو کور کرنے میں مصروف ہوتے تب بھی وہ اس شوق کے لیے وقت نکالتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں ان مختصر فلم کی کہانی لکھتا اور ان پر بحث کرتا جن پر ہم مستقبل میں کام کر سکتے تھے‘۔

فلم سازی کا اتنا ہی جنون ریحان کو بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ہمیشہ لوگوں کو کہانیوں کے طور پر دیکھا ہے اور ان کی زندگیوں، جدوجہد اور تجربات کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔

’اور پھر ہمیشہ اپنے سامعین کو اس طرح محسوس کروانا چاہتا تھا جس طرح میں نے ان کے بارے میں محسوس کیا۔ کہ کس طرح ہر چھوٹا سا ٹکڑا اس پہیلی کو مکمل کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ کیمرے نے مجھے اپنے خواب جینے کی طاقت دی ہے‘۔

ہم نے ان سے یہ مقابلہ جیتنے کے بارے میں دریافت کیا۔ افنان کو تو اس مقابلے نے فلم سازی کو بطور کریئر دیکھنے کی ترغیب دی ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے میرے اعتماد میں اضافہ ہوا اور مجھے فلم سازی کو بطور کریئر اکتیار کرنے کی ترغیب ملی‘۔

جب انہوں نے اپنی فلم مقابلے کے لیے پیش کی تو وہ جیتنے کی امید نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں جیتنے پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔ میں صرف حصہ لینے اور اپنا بہترین کام کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا تھا۔ لیکن یہ میرے لیے حیرت انگیز بات تھی جب مجھے معلوم ہوا کہ میں نے پہلا انعام جیتا ہے اور یہ مقابلہ جیتنا واقعی ایک بڑی بات تھی۔

’اس کامیابی نے میرے لیے بہت سے دروازے کھول دیے ہیں کیونکہ یہ مقابلہ جیتنے سے میری پروفائل بہتر ہوئی ہے اور اب لوگ میرے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اور مختلف پروجیکٹس میں تعاون کرنا چاہتے ہیں‘۔

ریحان کو اس جیت نے ’اور بھی بہتر [دنیا] کے لیے کام کرتے رہنے‘ کاحوصلہ بخشا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیتنے کے بعد سے چیزوں میں ’بہت مثبت‘ تبدیلیاں آئی ہیں۔ ’میں نے انعامی رقم ان آلات کو اپ گریڈ کرنے کے لیے استعمال کی جو کافی پرانے ہوچکے تھے‘۔

انہوں نے سونی اے 6400 اور کینن 6ڈی کے ساتھ ’صف اول‘ کو شوٹ کیا تھا۔ ریحان کہتے ہیں کہ ’انعامی رقم سے میں نے کینن ایوس آر کیمرہ لے لیا ہے‘۔ اس دوران افنان نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنے پوسٹ پروڈکشن سسٹم کو بھی اپ گریڈ کیا ہے۔

افنان اپنے اسٹوڈیو کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسلام آباد میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میوڈا پاکستان میں میڈیا مینیجر بھی ہیں۔ لیکن جب فلمی منصوبوں کی بات آتی ہے تو ان کے پاس کچھ منصوبے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’میرے پاس لائن اپ میں کچھ اسکرپٹس ہیں جن کی شوٹنگ میں جلد شروع کروں گا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے مقامی برانڈز کے لیے کچھ اشتہارات پر کام کیا ہے اور پھر میں نے ایک مختصر فلم کی جسے میں نے ابھی تک فائنل نہیں کیا۔۔ اس کے علاوہ میں اپنے بائیک وی بلاگز پر کام کر رہا ہوں‘۔

ریحان کہتے ہیں کہ انہوں نے صفِ اول جیسی صنف میں ایک سیریز کرنے کا فیصلہ کیا ہے ’جس میں ہم اپنے معاشرے کے غیر دریافت شدہ کمیونٹیز اور ہیروز کو تلاش کریں گے‘۔ انہوں نے اب تک کے سفر کے بارے میں بتایا کہ ’یہ ایک متاثر کن سفر رہا اور یہ جاننا بہت شاندار رہا کہ ہمارے لوگ کتنے حیرت انگیز ہیں اور ہماری ثقافت کتنی متنوع ہے‘۔

ہم نے افنان سے اشفاق کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ ’ہم رابطے ہیں اور بہت اچھے دوست ہیں، ہم ہر کچھ دن بعد چائے پر ضرور ملتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں‘

ریحان نے بتایا کہ وہ بھی اشفاق سے رابطے میں ہیں ’ماشا اللہ وہ بہت خوش ہوئے تھے جب انہیں وہ پذیرائی ملی جس کے وہ حق دار تھے‘۔


اس مقابلے کے 5 سال مکمل ہونے پر ڈان ڈاٹ کام اور ڈی ڈبلیو 11 دسمبر کو ایک ڈاکومنٹری فلم فیسٹیول اور ایوارڈ شو کا اہتمام کررہے ہیں۔ اس پروگرام میں پینل ڈسکشن کے لیے فلم ساز سرمد کھوسٹ، ایک انٹرایکٹو سیشن کے لیے پتنگیر، لائیو پرفارمنس کے لیے میوزک بیڈ خماریاں اور دیگر کئی سرپرائز بھی آپ کے منتظر ہوں گے۔

اس مقابلے کے فاتحین کا اعلان بھی اسی پروگرام میں کیا جائے گا۔ مذکورہ پروگرام کے ٹکٹ ٹکٹ والا پر دستیاب ہیں۔ دی کامنز کراچی کی جانب سے یہ پروگرام ڈسٹرکٹ 19 میں دن 3 بجے سے رات 10 بجے تک جاری رہے گا۔