پاکستان

سائفر آڈیو لیک: لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی ایف آئی اے طلبی کا نوٹس معطل کردیا

کیا اس بات کی انکوائری کی گئی کہ سائفر آڈیو لیک کیسے ہوئی، جن لوگوں کا وہاں کنٹرول تھا کیا ان سے یہ تفتیش ہوئی، جسٹس اسجد گھرال
|

لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو سائفر آڈیو لیک معاملے پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کی جانب سے دیا گیا طلبی کا نوٹس معطل کردیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے سائفر آڈیو لیک تنازع کی تحقیقات کے سلسلے میں طلبی کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت عالیہ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے عمران خان کے خلاف سائفر آڈیو لیک کی انکوائری شروع کردی ہے۔

جسٹس اسجد گھرال نے پوچھا کہ کیا اس بات کی انکوائری کی گئی کہ سائفر آڈیو لیک کیسے ہوئی، جن لوگوں کا وہاں کنٹرول تھا کیا ان سے یہ تفتیش ہوئی کہ آڈیو لیک کیسے ہوئی۔

وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ وزیر اعظم آفس سے آڈیو لیک ہونا افسوس ناک ہے جبکہ ایف آئی اے نے انٹرنیٹ سے آڈیو اٹھا کر خود سے تفتیش شروع کردی۔

جسٹس اسجد گھرال نے ریمارکس دیے کہ پہلے تو آڈیو کا فرانزک ہونا چاہیے کہ وہ درست بھی ہے یا نہیں، کیا آڈیو لیک میں اور بھی لوگوں کے خلاف انکوائری ہوئی ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ میرے علم کے مطابق شاہ محمود قریشی سمیت دیگر کے خلاف بھی انکوائری جاری ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے وکیل کے دلائل سننے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایف آئی اے میں طلبی کا نوٹس معطل کر دیا اور ایف آئی اے سمیت دیگر فریقین سے 19 دسمبر تک جواب طلب کر لیا۔

خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سائفر آڈیو لیک تنازع پر ایف آئی اے کے نوٹس کے خلاف گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔

عمران خان نے درخواست میں وفاقی حکومت، ایف آئی اے اور تفتیشی افسر کو فریق بنایا ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ایف آئی اے نے سائفر پیغام کے معاملے پر انکوائری شروع کر رکھی ہے اور اس معاملے پر بیان قلم بند کروانے کے لیے 6 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے۔

وکیل کے توسط سے دائر درخواست میں عمران خان نے کہا تھا کہ سائفر انکوائری کو پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، لیکن سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے بے بنیاد انکوائری میں طلب کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے میں طلبی کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ طلبی کے نوٹس میں کسی قانون کی پاسداری نہیں کی گئی ہے، لہٰذا سائفر آڈیو لیک اسکینڈل کی انکوائری غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک سائفر آڈیو لیک اسکینڈل انکوائری روک دی جائے۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے سائفر آڈیو لیکس کے معاملے پر اکتوبر میں سابق وزیر اعظم، ان کے ساتھی سابق وزرا اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری دیتے ہوئے تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی۔

بعدازاں تحقیقاتی ٹیم نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت دیگر کو بیان دینے کے لیے طلب کرلیا تھا۔

آڈیو لیکس

خیال رہے کہ 28 ستمبر کو لیک ہونے والی پہلی آڈیو میں مبینہ طور پر سابق وزیراعظم عمران خان اپنے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے بات کرتے سنے گئے، جس کی ابتدا میں مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر‘۔

گفتگو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے کہا کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو سائفر ہے میرا خیال ہے ایک میٹنگ اس پر کر لیتے ہیں، جس میں شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ ہوں گے، شاہ محمود کو کہیں گے کہ وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں، وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اسے کاپی میں بدل دیں گے، وہ میں منٹس میں (تبدیل) کردوں گا کہ سیکریٹری خارجہ نے یہ چیز بنادی ہے۔‘

آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے مزید کہا کہ ’بس اس کا کام یہ ہوگا کہ اس کا تجزیہ ہوگا جو اپنی مرضی کے منٹس میں کردیں گے تاکہ دفتری ریکارڈ میں آجائے اور تجزیہ یہی ہوگا کہ سفارتی روایات کے خلاف دھمکی دی گئی، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں۔‘

اس پر عمران خان کو یہ پوچھتے سنا جاسکتا ہے کہ ’تو پھر کس کس کو بلائیں اس میں، شاہ محمود قریشی، آپ (اعظم خان) اور سہیل (سیکریٹری خارجہ)، ٹھیک ہے تو پھر کل ہی کرتے ہیں۔‘

اس کے بعد دوسری آڈیو لیک میں مبینہ طور پر عمران خان پارٹی رہنماؤں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم عمران خان سے گفتگو کرتے سنائی دیے۔

آڈیو میں عمران خان کہتے ہیں کہ ’اچھا شاہ جی، کل آپ نے، ہم نے، تینوں نے اور سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ کرنی ہے، اس میں ہم نے صرف کہنا ہے کہ وہ جو لیٹر ہے نا اس کے چپ کر کے مرضی کے منٹس لکھ دے، اعظم خان کہہ رہا ہے کہ اس کے منٹس بنا لیتے ہیں، اسے فوٹو اسٹیٹ کرا لیتے ہیں‘۔

عمران خان کہتے ہیں کہ ’ہم نے تو امریکیوں کا نام لینا ہی نہیں ہے، کسی صورت میں، اس ایشو کے اوپر پلیز کسی کے منہ سے امریکا کا نام نہ نکلے، یہ بہت اہم ہے آپ سب کے لیے، کس ملک سے لیٹر آیا ہے، میں کسی کے منہ سے اس کا نام نہیں سننا چاہتا‘۔

اس دوران مبینہ طور پر اسد عمر کہتے ہیں کہ ’لیٹر نہیں ہے، میٹنگ کی ٹرانسکرپٹ ہے‘، اس پر عمران خان کہتے ہیں کہ ’وہی ہے نا، میٹنگ کی ٹرانسکپرٹ اور لیٹر ایک ہی چیز ہے، لوگوں کو ٹرانسکرپٹ تو نہیں سمجھ آنی تھی نا، آپ پبلک جلسے میں تو یہ کہتے ہیں‘۔