برازیل کی فارم کو بریک لگانا اب کافی مشکل لگ رہا ہے
سالوں انتظار کے بعد ٹرافی کے حصول کے ایک قدم نزدیک آنے والی جنوبی کوریا کی ٹیم کا عالمی کپ سفر اختتام کو پہنچا جبکہ دوسری جانب پہلی بار راؤنڈ آف 16 میں جگہ بنانے والی جاپان کی ٹیم کو بھی قطر سے روانگی کا پروانہ مل گیا ہے۔ لیکن سب ہی اس بات کے معترف ہیں کہ ان دونوں ایشیائی ٹیموں نے گروپ مرحلے کے میچوں میں یوروگوئے اور جرمنی جیسی بڑی ٹیموں کو باہر کرکے ٹورنامنٹ کو جو منفرد رخ دیا تھا، اسی نے عالمی کپ 2022ء کو یادگار بنایا ہے۔
کل پہلے میچ میں کروشیا اور جاپان مدِمقابل آئیں۔ توقع تھی کہ دلچسپ مقابلہ ہوگا اسی لیے یہ میچ پورا دیکھا۔ شروع میں کروشیا گول باکس میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن جاپانی ٹیم کا دفاعی فارمیشن بہترین تھا۔ اس کے علاوہ جاپانی کھلاڑیوں کا ریکوری ٹائم بھی کم تھا۔ آسان الفاظ میں میچ کے دوران کوئی ٹیم جتنی جلدی مخالف ٹیم سے بال واپس حاصل کرے گی اتنا ہی کم اس کا ریکوری ٹائم ہوگا۔ خیر جاپانی ٹیم بال پر گرفت کے حوالے سے بھی 2018ء کے عالمی کپ کی رنر اپ ٹیم کروشیا کو ٹکر دے رہی تھی۔
جاپانی ٹیم مسلسل کوششوں میں لگی ہوئی تھی اور پہلے ہاف کے اختتامی لمحات میں ایک گول اسکور کرکے جاپان نے کروشیا پر 0-1 کی برتری حاصل کر ہی لی۔ یہ گول میڈا نے اسکور کیا۔گول ہوگیا جاپانی کھلاڑیوں نے خوشی بھی منا لی، پھر وی اے آر کی باری آئی۔ لیکن چیک کرنے کے بعد چونکہ کھلاڑی آف سائڈ نہیں تھا اس لیے گول تسلیم کرلیا گیا۔
دوسرے ہاف کا کھیل شروع ہوا تو کروشیا نے کافی تیز کھیل کھیلا۔ کاؤنٹر مارنے کی کوشش کی گئی لیکن جیسے میں نے پہلے بتایا، جاپان اچھا دفاع کررہی تھی۔ لیکن میچ کے 55ویں منٹ میں کروشیا کے ایوان پیراسچ نے شاندار ہیڈر مار کے اسکور 1-1 سے برابر کردیا۔ پیراسچ کا کھیل پورے میچ میں متاثرکُن رہا۔
جاپانی کوشش کرتے رہے لیکن کاؤنٹر کے وقت وہ بال پر قبضہ برقرار نہیں رکھ پا رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ کروشین دفاع جاپانی کھلاڑیوں سے باآسانی بال چھین رہا تھا۔ جبکہ اگر کوئی جاپانی کھلاڑی اچھا کاؤنٹر رن لے کر گول باکس میں داخل ہو بھی رہا تھا تب بھی ڈی میں اس کا پاس لینے کے لیے کوئی جاپانی کھلاڑی موجود نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہی جاپانی ٹیم میچ میں مزید گول اسکور نہیں کرپائی حالانکہ انہیں کافی مواقع ملے تھے۔
چونکہ 1-1 سے مقابلہ برابر رہا تو اب 30 منٹ کا ایکسٹرا ٹائم کھیلا جانا تھا۔ یوں ناک آؤٹ مرحلے کا پہلا ایکسٹرا ٹائم کھیلا گیا۔ لیکن ایکسٹرا ٹائم کا کھیل مجھے کافی سسُت لگا۔
ایکسٹرا ٹائم کے 30 منٹ اختتام کو پہنچے اور اب باری تھی سنسنی خیز پینلٹیز کی۔ جاپانی گول کیپر کیونکہ اچھا دفاع کرتے ہیں تو مجھے لگا کہ ہاں یہ شوٹ آؤٹ دیکھنے میں مزا آئے گا لیکن ہوا اس کے برعکس، یعنی جاپانی ٹیم نے بہت مایوس کیا۔ حتیٰ یوشیڈا جو جاپانی ٹیم کے سب سے زیادہ تجربہ کار کھلاڑی ہیں وہ بھی پینلٹی نہ مار سکے۔ جو جو پینلٹیز روکی گئیں سب کی رفتار کم تھی جبکہ مخالف کیپر کو یہ بھی اندازہ تھا کہ یہ کس جانب ماری جائے گی۔
مسلسل 3 پینلٹیز روک کے کروشیا کے گول کیپر لیواکووچ نے اپنی ٹیم کو عالمی کپ کوارٹر فائنل میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں لوکا موڈرچ کی کروشیا نے پینلٹی شوٹ آؤٹ پر جاپان کی ٹیم کو عالمی کپ کی دوڑ سے باہر کیا۔
اب ذکر کرتے ہیں دوسرے میچ کا جو دوسری ایشیائی ٹیم جنوبی کوریا اور برازیل کے درمیان کھیلا گیا۔ اور سچ پوچھیے تو برازیل جیسی بڑی ٹیم نے جنوبی کوریا کو چیونٹی کی طرح مسل دیا۔
پہلے ہاف کے 7ویں منٹ میں وینیشیئس جونیئر نے آخرکار اپنا پہلا گول اسکور ہی دیا۔ میں اس بات کا ذکر پہلے بھی کرچکی ہوں کہ وینیشیئس جونئر کا کھیل مجھے کافی پسند ہے اور مجھے انتظار رہتا ہے کہ کب بال ان کے پاس آئے اور وہ کوئی موو بنائیں۔ کل انہیں موقع ملا اور انہوں نے برازیل کا پہلا گول اسکور کیا۔ پھر تو جیسے گولز کا تانتا ہی بندھ گیا۔
10ویں منٹ میں رچارلیسن کو پینلٹی ایریا میں گرانے پر برازیل کو پینلٹی اسکور کرنے کا موقع ملا۔ یہ پینلٹی بھی سمجھ نہیں آئی، کوریا کے کھلاڑی نے واضح طور پر بال کو کک مارنے کی کوشش کی تھی لیکن رچارلیسن آگے آگئے۔ خیر یہ پینلٹی لینے نیمار آئے جو ٹخنے کی انجری کے باعث گروپ مرحلہ نہیں کھیل سکے تھے۔ نیمار نے باآسانی پینلٹی پر گول اسکور کرکے اس عالمی کپ میں اپنا پہلا گول اسکور کیا۔ نیمار کو اب لیجنڈ برازیلی فٹبالر پیلے کے 77 گولز کا ریکارڈ توڑنے کے لیے محض 2 گولز کی ضرورت ہے۔
رچارلیسن پھر آگے آئے اور انہوں نے 29ویں منٹ میں برازیل کے لیے گول اسکور کیا جو کھلاڑیوں کے بہترین تعاون سے مارا گیا۔ جبکہ چند ہی منٹ بعد یعنی 36ویں منٹ میں لوکس پیکویٹا نے وینیشیئس جونئر کے شاندار اسسٹ پر گول اسکور کردیا۔ یوں مقابلہ پہلے ہاف میں ہی 0-4 سے برازیل کے حق میں تھا جس کا تعاقب جنوبی کوریا کے لیے کافی مشکل تھا۔
دوسرے ہاف میں برازیل کے اٹیک کو روکنے میں جنوبی کوریا کچھ حد تک کامیاب ہوئی۔ اگرچہ اب صرف کوریا دفاعی کھیل ہی کھیل رہی تھی جس کا مقصد شاید مزید گولز نہ کھانا تھا۔ جنوبی کوریا نے مواقع بنانے کی کوشش بھی کی لیکن برازیلی تجربہ کار ڈیفینڈر تھیاگو سلوا کے دفاع کو توڑنا تو یورپی ٹاپ ٹیموں کے لیے بھی آسان ہدف نہیں ہوتا۔
75ویں منٹ میں جنوبی کوریا نے اپنا پہلا گول اسکور کر ہی لیا۔ یہ گول پیک سیونگ ہو نے گول باکس کے باہر سے شاندار نشانہ لے کر اسکور کیا۔
البتہ سونگ ہیونگ من کا شمار ان چند کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جن کا عالمی کپ میں کھیل دیکھنے کے لیے میں منتظر تھی۔ بہترین کلب سیزن کھیلنے والے پریمیئر لیگ اسٹار نے متعدد فریکچرز کے باوجود اپنی ٹیم کو عالمی کپ کے راؤنڈ آف 16 میں پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اختتام کی سیٹی بجی اور عالمی کپ فیوریٹ ٹیم برازیل یکطرفہ مقابلے کے بعد یہ میچ 1-4 سے جیت گئی۔ میچ کے اختتام پر برازیلی ٹیم نے کینسر کے عارضے میں مبتلا اسٹار فٹبالر پیلے کو خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔
ایک اور دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ برازیل نے اپنے تمام میچوں میں متعدد متبادل کھلاڑیوں کو بھیجا حتیٰ کہ کل گول کیپر ایلیسن کو بھی باہر بلا لیا گیا۔ یوں اس پورے عالمی کپ میں برازیل کی 26 رکنی پوری ٹیم نے متعدد مواقع پر اپنی ٹیم کے لیے میدان میں چند لمحات کے لیےکھیلا جو ایک بہت اچھا اقدام تھا۔ عالمی کپ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے سے زیادہ بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے جبکہ بہت سے ممالک کے کھلاڑیوں کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ میدان میں اتر سکیں۔
یہ میچ اسٹیڈیم 974 میں کھیلا جانے والا آخری میچ تھا۔ عالمی کپ کے اختتام پر شپنگ کنٹینرز سے بنے اس عارضی اسٹیڈیم کو تحلیل کردیا جائے گا۔ یوں قطر کے اس عالیشان اسٹیڈیم کا مقصد پورا ہوگیا جس کا ذکر ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل ہی عروج پر تھا۔
کوارٹر فائنل میچ میں برازیل کا مقابلہ کروشیا سے ہوگا جبکہ کروشیا کے لیے برازیل کی فارم کو بریک لگانا کافی مشکل ہدف ثابت ہوگا۔ نیمار، وینیشیئس جونیئر، ریچارلیسن اور دیگر نوجوان کھلاڑیوں کا کھیل نہایت دلچسپ ہے جبکہ وہ مخالف ٹیموں پر سبقت لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ برازیل کا پلڑا بھاری لگ رہا ہے لیکن اگر کروشیا برازیل کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئی تو اسے اپ سیٹ کہنا کچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا۔
خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔