ہم جمہوریت کے لیے کتنی بڑی ’قیمت‘ ادا کررہے ہیں؟
پارلیمنٹ کے کیلنڈر کے برعکس، پنجاب کی صوبائی اسمبلی گزشتہ 7 ماہ سے سیشن میں ہی ہے۔ اگرچہ اسے 40ویں، 41ویں اور 42ویں سیشنز میں تقسیم کردیا گیا ہے لیکن ان سیشنز کے درمیان صرف ایک دن کا وقفہ ہے جو اسے عملی طور پر اسمبلی کا ایک ہی طویل سیشن بناتا ہے۔
بظاہر، سیشن جاری رکھنے اور اس سے متعلق اخراجات اٹھانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ گورنر کو یہ موقع نہ مل سکے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سے اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کریں۔ ویسے بھی اس اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ کے پاس معمولی سی اکثریت ہے۔
اعتماد کی تحریک میں اکثریت ثابت کرنے کا بوجھ وزیرِ اعلیٰ کے کندھوں پر ہوتا ہے اور کسی رکنِ صوبائی اسمبلی کی (کسی بھی وجہ سے) عدم موجودگی سے اعتماد کی یہ تحریک ناکام ہوسکتی ہے۔
اگرچہ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ گورنر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے سیشن کے دوران بھی وزیرِ اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے لیکن شاید اسمبلی کو اس غلط تاثر کے تحت سیشن میں رکھا گیا کہ اس دوران گورنر، وزیرِ اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔
یہ صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح سیاسی جماعتوں کے مفادات کے لیے جمہوریت کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس سے قبل اسی اسمبلی نے 2 متوازی بجٹ اجلاس منعقد کروائے تھے جس کی لاگت ایک عام سیشن پر آنے والی لاگت سے تقریباً دوگنی تھی۔
جمہوریت ایک مہنگا نظام ہوتا ہے کیونکہ اس میں وقتاً فوقتاً انتخابات کروانے پڑتے ہیں، وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں اور مقامی منتخب حکومتوں کو برقرار رکھنا ایسا کام ہے جس میں کافی سرمایہ خرچ ہوتا ہے لیکن یہ اخراجات جائز ہیں۔
اگر جمہوری اداروں کا جمہوری طریقے سے ہی انتخاب ہو اور انہیں دیانتداری اور بہتر کارکردگی جیسے حقیقی جمہوری اقدار کے تحت چلایا جائے تو جمہوری نظام کی قیمت کچھ زیادہ نہیں۔ لیکن اگر اس نظام میں جمہوری اصولوں کا غلط استعمال یا ان کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے تو یہی جمہوری نظام مالی بوجھ کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔
ہماری پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو ہی دیکھ لیں۔ ایک پارلیمانی سال کے دوران جتنے دن پارلیمان کو سیشن میں رہنا ضروری ہوتا ہے ان کی کم از کم تعداد مخصوص ہے۔ قومی اسمبلی کم سے کم 130 دن، سینٹ 110 دن اور صوبائی اسمبلیاں 100 دن اجلاس منعقد کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔
آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اسمبلی اجلاس کے دوران دو دنوں کی چھٹی کو بھی اجلاس کے دورانیے میں شمار کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلی اجلاس حقیقتاً اتنے دن ہوتا نہیں جتنے دن بتایا جاتا ہے۔ اس کی مثال پنجاب اسمبلی کا 41واں سیشن ہے جس کا اجلاس صرف 35 دن ہوا لیکن وقفوں سمیت اس سیشن کو 127 دن گنا گیا۔
دو اور چیزیں بھی جمہوری اقدار کے سنگین غلط استعمال کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اوّل یہ کہ پاکستانی اسمبلیوں میں کام کا ایک دن اوسطاً 3 گھنٹے کا ہوتا ہے جو کسی بھی معیار کے مطابق ناکافی ہے۔ بھارتی لوک سبھا دن میں 6 گھنٹے کام کرتی ہے اور برطانوی دارالعوام دن میں تقریباً 8 گھنٹے کام کرتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ قومی اسمبلی طے شدہ ایجنڈے یا ’آرڈر آف دی ڈے‘ کو بمشکل اوسطاً 40 فیصد ہی پورا کر پاتی ہے۔
منتخب نمائندگان کی ایوان میں غیر موجودگی کے باعث کارروائی ملتوی کرنا معمول بنتا جارہا ہے جبکہ ایوان میں شورشرابہ اور جھگڑے بھی عام ہوتے جا رہے ہیں۔ اس اسمبلی میں بجٹ کی منظوری ایک رسمی سی کارروائی بن گئی ہے جبکہ یہاں کسی اہم پالیسی دستاویز کی جانچ پڑتال بھی اب بہت کم ہی کی جاتی ہے۔
سال 23ء-2022ء میں قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کے لیے 4 کروڑ 70 لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا جبکہ سینیٹ کے اجلاس کے لیے 3 کروڑ 40 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔
اسی طرح پنجاب اسمبلی کے لیے 3 کروڑ 70 لاکھ، سندھ اسمبلی کے لیے 2 کروڑ 90 لاکھ، خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے ایک کروڑ 80 لاکھ جبکہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے لیے 2 کروڑ 30 لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دن کا نقصان کرنے یا ایجنڈا مکمل نہ کرنے کی ٹیکس دہندگان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
قومی اسمبلی کے صرف ایک حلقے میں منعقد ہونے والے عام اور ضمنی انتخابات میں تقریباً 8 سے 9 کروڑ روپے کی لاگت آتی ہے۔ اتنے اخراجات کے باوجود پچھلے 8 انتخابات میں اوسط ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 45 فیصد رہا جو دنیا میں کم ترین ووٹر ٹرن آؤٹ میں شامل ہے۔ دنیا بھر میں اوسط ووٹرز ٹرن آؤٹ 66 فیصد ہے۔
ہمارے آئین میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں کہ ایک امیدوار بیک وقت مخصوص حلقوں پر ہی انتخاب لڑسکتا ہے۔ اب عمران خان کی ہی مثال لے لیں۔ عمران خان نے 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 5 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور سوائے ایک نشست کے انہوں نے بقیہ تمام نشستیں خالی کردیں۔ یوں ان 4 حلقوں میں دوبارہ انتخابات منعقد کیے گئے جس سے صرف سرکاری اخراجات میں ہی اضافہ ہوا۔
دیگر ممبران نے بھی اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیا تھا۔ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمران خان نے قومی اسمبلی کی 6 مختلف نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیا جس کا مطلب یہی ہے کہ اب خالی ہونے والی ان 5 نشستوں پر دوبارہ ضمنی انتخابات منعقد کروانے پڑیں گے۔
جمہوریت میں عوام، سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو احتجاج کرنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن اس احتجاج کی بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں جن میں عوام کو تکلیف نہ دینا یا کاروباری یا عوامی خدمات جیسے تعلیم میں رکاوٹ نہ ڈالنا شامل ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ان پابندیوں کا احترام بہت کم کیا جاتا ہے جس وجہ سے کاروبار اور دیگر عوامی خدمات کو نقصان پہنچتا ہے۔ ان مظاہروں میں اربوں نہیں تو کروڑوں تو خرچ ہو ہی جاتے ہیں۔ لانگ مارچ اور اس جیسے مظاہروں کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کی قیمت ٹیکس دہندگان ہی ادا کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے لاہور سے راولپنڈی جانے والے عمران خان کے حقیقی آزادی لانگ مارچ کے حوالے سے 41 کروڑ کی ابتدائی رقم جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔ دوسری جانب پنجاب حکومت نے اخراجات کی لاگت بتائی تو نہیں لیکن لگ یہی رہا ہے کہ صوبائی حکومت کے اخراجات وفاقی حکومت سے زیادہ ہی ہوں گے کیونکہ اس لانگ مارچ کو پورے پنجاب سے گزرنا تھا۔
میں یہ بات ہرگز نہیں کہہ رہا کہ جمہوری نظام کو ان اخراجات کے باعث ترک کردینا چاہیے بلکہ میں یہاں عوام، سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندگان سے گزارش کررہا ہوں کہ وہ اپنی جمہوری آزادی اور حقوق کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ کریں اور اپنے فرائض بہتر انداز میں سرانجام دیں۔
ان کا موجودہ طرزِ عمل پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کررہا ہے۔ اوسطاً 55 فیصد ووٹرز کی انتخابی عمل میں عدم موجودگی اور تقریباً 70 فیصد نوجوانوں کا ووٹ ڈالنے سے گریز کرنا پاکستان میں جمہوری اقدار پر سخت سوالات اٹھاتا ہے۔ اگر ہم گزشتہ آرمی چیف کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے اعتراف کی وجہ سے ریاستی معاملات میں کچھ چھوٹ بھی دے دیں تب بھی سیاستدانوں اور عوام کی ذمہ داری کسی صورت کم نہیں ہوتی۔
یہ مضمون 3 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔