سنسنی سے بھرپور گروپ مرحلے کے میچ بہت یاد آئیں گے
ہر روز ایسا لگتا ہے کہ اب اس سے زیادہ ڈراما کیا ہوسکتا ہے لیکن ہر دن فیفا ورلڈ کپ مجھے غلط ثابت کررہا ہے۔
جب ایک گروپ کے 2 میچ بیک وقت کھیلے جانے سے متعلق شیڈول سامنے آیا تو مجھے الجھن ہورہی تھی کہ انہیں دیکھنا کتنا مشکل ہوگا لیکن کل جب یہ مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا تب مجھے اندازہ ہوا کہ اس عالمی کپ کا سب سے دلچسپ حصہ یہی تھا جب ٹیمیں میدان میں دوسرے میچ کے نتیجےکا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت جو دل کی کیفیت ہوتی ہے، سچ پوچھیےتو مجھے یہ کیفیت بہت یاد آئے گی۔
جب گروپ ڈراز منعقد ہوئے اور گھانا اور یوروگوئے ایک ہی گروپ کا حصہ بنے تب سے ہی مجھے اس میچ کا انتظار تھا۔ اگر آپ میرے اس انتظار کی وجہ نہیں جانتے تو میں آپ کو ایک مختصر سا قصہ سناتی ہوں۔
یہ جنوبی افریقہ میں ہونے والے 2010ء کے عالمی کپ کا کوارٹر فائنل تھا۔ اس کوارٹر فائنل میں یوروگوئے کا مقابلہ گھانا سے تھا اور مقابلہ 1-1 گولز سے برابر تھا۔ گھانا متواتر گول اسکور کرنے کی کوشش میں تھی اور ایک بہت اچھا موو بھی بنا لیکن یوروگوئے کے لوئس سواریز نے گول لائن پر بال کو ہاتھ سے روک لیا۔ اس ہینڈبال پر سواریز کو ریڈ کارڈ دیا گیا اور گھانا کو پینلٹی۔ لیکن گھانا کے کھلاڑی گیان وہ پینلٹی نہیں مار پائے۔
اس میچ کا فیصلہ پینلٹی شوٹ آؤٹ پر کیا گیا جس کے بعد یوروگوئے نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی تھی۔ یوں کئی مواقع ملنے کے باوجود گھانا کی ٹیم تاریخ رقم کرنے سے محروم رہ گئی۔ اگر گھانا وہ میچ جیت جاتی تو وہ سینی فائنل میں پہنچنے والی پہلی افریقی ٹیم بن جاتی۔
گھانا کے لوگ اس ہینڈ بال کی وجہ سے آج بھی لوئس سواریز سے کینہ رکھتے ہیں۔ کل کے گھانا اور یوروگوئے میچ میں ہمیں وہ غصہ نظر بھی آیا جب گھانا کے شائقین اپنے ہاتھ میں ایسے بینرز اٹھائے نظر آئے جس میں ٹیم سے مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ 2010ء کا بدلہ لیں۔
جبکہ کل کے میچ سے چند روز قبل اپنے بیان میں سواریز نے کہا تھا کہ ’مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے کیونکہ پینلٹی میں نے نہیں انہوں نے اسکور نہیں کی‘۔ اس بیان نے ایک بار پھر اس بڑے میچ سے قبل 2010ء سے چلنے والی گھانا اور یوروگوئے کی ٹیموں کی دشمنی کو ہوا دی۔
کل بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا، ترانے کے بعد جب سواریز گھانا کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملا رہے تھے تب ان کے کھلاڑیوں کے چہرے پر سواریز کے لیے نفرت عیاں تھی اور اس دفعہ تو یوروگوئے کے کپتان بھی لوئس سواریز تھے۔
رات 8 بجے گروپ ایچ کے مقابلوں میں جنوبی کوریا اور پرتگال آمنے سامنے آئیں جبکہ دوسری جانب یوروگوئے کا مقابلہ گھانا سے تھا۔ دونوں ہی میچوں کا پہلا ہاف بہت اچھا کھیلا گیا۔ یوروگوئے کے کھلاڑی ارس سیئیٹا نے 2 گول اسکور کرکے یوروگوئے کو گھانا کے خلاف 0-2 کی برتری دلوائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں گولز کو اسسٹ لوئس سواریز نے کیا۔
گھانا کو سال 2010ء کی طرح اس میچ میں بھی پینلٹی ملی لیکن ایک بار پھر گھانا اس پینلٹی پر گول اسکور نہیں کرپائی۔ اس سے ماضی کی یاد تازہ ہوگئی۔
جبکہ جنوبی کوریا اور پرتگال کے دوسرے میچ میں پہلے ہاف تک مقابلہ 1-1 سے برابر تھا۔ چونکہ یوروگوئے بمقابلہ گھانا میں کافی فاؤلز کیے گئے تھے اس لیے یہاں پہلے ہاف کا اضافی وقت بھی زیادہ تھا۔ اضافی وقت کے فرق کی وجہ سے یوروگوئے کے میچ کا دوسرا ہاف 7 منٹ بعد شروع ہوا۔
پرتگال کے خلاف کوریا مسلسل گول مارنے کی کوشش میں نظر آئی جبکہ ان کا دفاع بھی بہترین رہا۔ ٹوٹنہم کلب کے لیے سون ہیونگ من کا کھیل مجھے کافی پسند تھا اس لیے میں چاہ رہی تھی کہ کل تو وہ کوئی گول مار ہی دیں لیکن متواتر کوششوں کے باوجود وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔
دوسرے ہاف کے کھیل میں یوروگوئے نے سواریز کو بینچ پر بلا لیا جبکہ ان کے متبادل ایڈنسن کاوانی کو بھیجا گیا جبکہ پرتگال نے بھی کرسٹیانو رونالڈو کو باہر بلا لیا۔
اگر جنوبی کوریا کے میچ کا اختتام 1-1 سے ہوتا تب یوروگوئے اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرجاتا لیکن ایسا ہوا نہیں اور جو کچھ ہوا وہ کسی تھریلر سے کم نہیں تھا۔
اہم موڑ تب آیا جب انجری ٹائم کے 92ویں منٹ میں پرتگال کے خلاف جنوبی کوریا نے گول اسکور کیا۔ یہ شاندار گول ہوانگ ہی چان نے اسکور کیا جسے اسسٹ سون ہیونگ من نے کیا۔ اب مقابلہ 1-2 سے کوریا جیت رہی تھی اور اگر نتیجہ یہی رہتا تب یوروگوئے عالمی کپ سے باہر ہوجاتی۔ پوائنٹس برابر ہونے کے باوجود، کوریا کھائے اور مارے جانے والے گولز کے حساب سے یوروگوئے سے آگے تھی۔
جیسا میں نے بتایا کہ یوروگوئے کا میچ 7 منٹ پیچھے تھا اس لیے دوسری جانب میچ ختم ہونے کے بعد کوریا کے کھلاڑی دائرہ بنا کر میچ دیکھتے رہے۔ فٹبال کا شوق رکھنے والی کی حیثیت سے کہوں تو اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے زیادہ طویل انتظار آپ نے کبھی نہیں کیا۔
سواریز کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوچکے تھے۔ ابھی اضافی وقت ختم ہونے میں وقت تھا، یوروگوئے کو گول اسکور کرنے کے مواقع بھی ملے لیکن گھانا کی مزاحمت کی داد بنتی ہے جو یہ سوچ رہی تھی کہ چونکہ ہم باہر ہو رہے ہیں تو یوروگوئے کو بھی اگلے مرحلے میں جانے نہیں دیں گے۔
یوروگوئے کے میچ کی اختتام کی سیٹی بجی۔ جہاں ایجوکیشن سٹی میں موجود جنوبی کوریا کی ٹیم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے وہیں الجانوب اسٹیڈیم میں موجود یوروگوئے کی ٹیم عالمی کپ کی دوڑ سے باہر ہونے کے دکھ میں رو رہی تھی۔
لوئس سواریزکا یہ آخری عالمی کپ تھا، آخری ورلڈ کپ میں گروپ مرحلے سے باہر ہوجانے کے بعد ان کا عالمی کپ سفر اختتام کو پہنچا۔ انہیں بلک بلک کے روتا دیکھ کے کافی دکھ ہورہا تھا جو جیت کے باوجود اپنے گھر جارہے تھے۔
2018ء عالمی کپ میں جرمنی کو اپ سیٹ شکست دینے کے بعد گروپ مرحلے سے باہر کرنے والی جنوبی کوریا نے اس بار ناک آؤٹ مرحلے میں رسائی حاصل کرلی۔
جب کوئی چھوٹی ٹیم جیتتی ہے تو انہیں خوش ہوتا دیکھ کر آپ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آجاتی ہے۔ جنوبی کوریا نے 2002ء کے عالمی کپ کے بعد پہلی مرتبہ ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ بنائی اور ان کے کھلاڑیوں کے جشن سے میں کافی محظوط ہوئی۔
افسوس مجھے جنوبی کوریا کے کوچ پاؤلو بینٹو پر ہورہا تھا جنہیں پچھلے میچ میں ریڈ کارڈ ملا تھا اور اس وجہ سے وہ اسٹینڈز میں موجود تھے۔ جب کوریا کی ٹیم یوروگوئے کے میچ کے اختتام پزیر ہونے کا انتظار کر رہی تھی تب بھی وہ اسٹیڈیم میں نہیں آپائے اور ان کی بے چینی دیکھ کر افسوس ہورہا تھا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ جشن نہیں بنا پائے۔
خیر رات 12 بجے ہونے والے گروپ جی کے میچوں میں برازیل کو کیمرون کے ہاتھوں 0-1 سے شکست ہوئی۔ چونکہ برازیل پہلے ہی عالمی کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں جا چکا تھا اس لیے اس ہار سے ان کے پوائنٹس پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ گروپ میں پہلے نمبر پر ہی براجمان ہے جبکہ کیمرون کے ابوبکر کے گول نے آخری لمحات میں اس میچ میں بھی ڈراما کھڑا کردیا۔
اضافی وقت میں گول مارنے کے بعد انہوں نے خوشی سے اپنی شرٹ اتار دی، اب چونکہ وہ پہلے ہی اس میچ میں یلو کارڈ لے چکے تھے اس لیے ریفری نے یلو کارڈ کے ساتھ انہیں ریڈ کارڈ دکھا کر میدان سے باہر بھیج دیا۔ یہاں واضح کرتی چلوں کہ ایک ہی میچ میں اگر 2 یلو کارڈ مل جائیں تو وہ ریڈ کارڈ ملنے کے برابر ہوتا ہے۔ یوں گروپ مرحلے کا اختتام بھی سنسنی خیز ہوا۔
جبکہ اسی گروپ کے دوسرے میچ میں کچھ توقعات کے برخلاف نہیں ہوا۔ سویٹزرلینڈ نے سربیا کو شکست دے کر اگلے مرحلے میں رسائی حاصل کرلی۔
گروپ مرحلہ اختتام کو پہنچ چکا ہے اور ان میچوں میں جو ڈراما دیکھنے کو ملا وہ اس عالمی کپ کے یادگار لمحات ہیں۔ تمام ٹیموں کے راؤنڈ آف 16 کے میچ اب واضح ہو چکے ہیں۔ آج سے شروع ہونے والے راؤنڈ آف 16 ہمارے لیے کیا حیرت انگیز مناظر لائے گا، اس کا انتظار بے صبری سے رہے گا۔
خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔