پاکستان

مسلم لیگ (ن) انتخابات سے راہ فرار کا تاثر زائل کرنے کیلئے کوشاں

عمران خان کی مقبولیت محض ایک افسانہ ہے، پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے لیے تیار ہیں، سابق سینیٹر پرویز رشید
|

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ’ہر قیمت پر‘ پنجاب اسمبلی کو برقرار رکھنے کے مؤقف پر اصرار سے ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایک فرد یا جماعت کی خواہش پر نہیں بلکہ ملک کے مفاد میں فیصلہ کر رہی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ عمران خان کے دباؤ پر ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔

اطلاعات کے مطابق شریف برادران کو پارٹی کے کچھ خیر خواہوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ ’ہر قیمت پر پنجاب اسمبلی برقرار رکھنے‘ کے اپنے مؤقف میں تبدیلی لائیں اور زیادہ اعتماد کا اظہار کریں کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر اسمبلی تحلیل کیے جانے کی صورت میں الیکشن لڑنے سے خوفزدہ نہیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) میں اس طرح کے خیالات کا اظہار عمران خان اور ان کی پارٹی ارکان کے ان دعووں کے بعد کیا گیا کہ پی ڈی ایم جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اپریل میں حکومت میں آنے کے بعد ان کی مقبولیت میں بہت ’کمی‘ کے خدشات کے باعث ضمنی انتخاب لڑنے سے خوفزدہ ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ شریف خاندان کے کچھ قریبی ساتھیوں نے انہیں ’معذرت خواہ‘ بیانیہ ترک کرنے کا مشورہ دیا جب کہ اس طرح کے بیانیے سے یہ تاثر جارہا ہے کہ پارٹی صوبے میں انتخابات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس بیانیے سے ایسا تاثر جاتا ہے کہ ہم عمران خان کے اس بیانیے کو مزید مضبوط کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ان کی مبینہ بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے انتخابات میں جانے سے خوفزدہ ہے، ہم مرکز میں حکومت میں ہیں، پنجاب میں نہیں، ہم پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کی مخالفت کیوں کریں؟

شریف خاندان کو ارسال کیے گئے پیغام میں کہا گیا کہ ہمیں تو عمران خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، تاکہ ہم یہاں صوبے میں بھی حکومت بنائیں اور یہی ہمارا بیانیہ ہونا چاہیے۔

تاہم مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے ڈان کو بتایا کہ اس موقع پر پارٹی کی جانب سے اسمبلیوں کو برقرار رکھنے کے مؤقف کے پیچھے آئینی، معاشی اور امن و امان سے متعلق وجوہات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی خواہش پر ملک نہیں چل سکتا، انتخابات کسی ایک شخص کی خواہش پر نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد ہوتے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک جماعت دوسری جماعتوں کو انتخابات کرانے کے اعلان پر مجبور نہیں کر سکتی۔

ان کا کہنا تھا آئین میں کہا گیا ہے کہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے، یہ بھی ممکن نہیں کہ مختلف اسمبلیوں کے الگ الگ الیکشن کرائے جائیں، اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے اپریل میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا بھی اعلان کردیا ہے۔

عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ پاکستان کے معاشی حالات، سیلاب کے بعد کی صورتحال، ٹی ٹی پی کی جانب سے حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے سے پیچھے ہٹ جانا وہ دیگر اہم مسائل ہیں جن کے باعث اس وقت ملک میں ماحول انتخابات کے لیے سازگار نہیں ہے۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے ترجمان ہارون شنواری کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں 60 روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق اعلیٰ حکام کی ہدایت کے بغیر بیان جاری کرنے پر انہیں برطرف کر دیا تھا اور اس کے بعد اپریل میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما پرویز رشید نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ پارٹی، انتخابات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم نہیں چاہتے کہ دو مرتبہ اربوں روپے ضائع ہوں، اگر مارچ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ہوتے ہیں تو 6 ماہ بعد قومی، بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ بلاوجہ اربوں روپے دو مرتبہ خرچ کیے جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کا ہر ایک پیسہ قیمتی ہے، اسے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لیے خرچ کیا جانا چاہیے، ہم پارٹی سیاست پر ملک کی معاشی صورتحال کو ترجیح دیتے ہیں۔

سابق سینیٹر اور نواز شریف کے قریبی ساتھی نے مزید کہا کہ عمران خان کی مقبولیت محض ایک افسانہ ہے۔

دو روز قبل ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے دفتر میں اجلاس کے بعد پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے پارٹی کے صوبائی اراکین اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی اور ’کسی بھی قیمت‘ پر عمران خان کا اسمبلی تحلیل کرنے کا مجوزہ منصوبہ ناکام بنانے کا عہد کیا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی پارلیمانی پارٹی نے جمہوری طریقے سے عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کا فیصلہ کیا ہے، اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی جبکہ گورنر راج کے آپشنز، وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور گورنر کی جانب سے وزیر اعلیٰ سے عدم اعتماد کا ووٹ لینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے منگل کے روز ملاقات کی جس میں ممکنہ سیاسی بحران کو روکنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نے آصف زرداری کو پنجاب میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کی حکومت دوبارہ قائم کرنے کا کام سونپا ہے۔

مشکل ترین حالات میں سیاسی حل نکالنے کے لیے شہرت رکھنے والے سابق صدر جلد ہی لاہور کا سفر کریں گے۔

اس ملاقات سے قبل آصف زرداری نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خود ساختہ جلاوطن قائد نواز شریف کی آواز تصور کیے جانے والے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے بھی ملاقات کی تھی۔

پہلاٹیسٹ: انگلینڈ کی ٹی20 طرز میں بیٹنگ، پہلے روز ریکارڈ 506 رنز

اسرائیلی فلم ساز نے بھارت میں فیسٹیول کے دوران ’دی کشمیر فائلز‘ پروپیگنڈا فلم قرار دے دی

کراچی کے صارفین کیلئے بجلی 2 روپے 15 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کی منظوری