فلم ریویو ضرار: ٹریلر جتنا عمدہ تھا کاش فلم بھی ویسی ہی ہوتی!
رواں برس پاکستانی سینما کے لیے بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں، جن میں سے کچھ کو باکس آفس پر کامیابی مل رہی ہے جبکہ کئی ایسی فلمیں بھی ہیں، جن کا صرف شور زیادہ رہا، مگر نمائش کے بعد وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی پاکستانی جاسوسی ایکشن فلم’ضرار’ کا معاملہ بھی یہی ہوا ہے۔ اس فلم کے لیے جتنے دعوے کیے گئے تھے، اس طرح یہ فلم ناقدین اور فلم بینوں کی امیدوں پر پوری نہیں اترسکی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں، آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلم سازی
اس فلم کے پروڈیوسرز اعجاز شاہد اور احمد علی بٹ ہیں۔ اعجاز شاہد فلم اسٹار شان شاہد کے بھائی ہیں جبکہ احمد علی بٹ معروف اداکار ہیں۔ اس فلم کے دیگر تمام بڑے شعبے، جن میں ہدایت کاری، اسکرپٹ نویسی، مکالمے اور اداکاری ہے، ان میں شان شاہد نے بذاتِ خود اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ فلم ان کے گھر کی فلم ہی ہے۔
فلم ضرار کی عکس بندی دنیا کے مختلف ممالک میں ہوئی، جن میں پاکستان سمیت ترکی اور انگلینڈ شامل ہیں، کچھ اصل لیکن فضائی مناظر بھارت اور روس کے بھی شامل کیے گئے ہیں۔
اس فلم کے لیے معروف برطانوی سینماٹوگرافر ’ٹم وڈ‘ کی خدمات حاصل کی گئیں جبکہ فلم کی پوسٹ پروڈکشن کا کام مشہور برطانوی اسٹوڈیو ’پائن وڈ اسٹوڈیو‘ میں ہوا، جو ایک تاریخی فلم اسٹوڈیو ہے، جہاں دنیا کی کئی معروف فلمیں تخلیق کی گئی ہیں، جن میں جیمز بونڈ فلم سیریز کی فلمیں بھی شامل ہیں۔ لیکن ضرار کو دیکھ کر یقین نہیں آیا کہ ان سب ہنرمندوں نے اس فلم میں اپنی خدمات فراہم کی ہیں اور اس کی پوسٹ پروڈکشن کا کام ایسے عالمی شہرت یافتہ اسٹوڈیو میں ہوا ہے۔
افسوس سے کہنا پڑے گا کہ تمام سہولتوں سے آراستہ ہونے کے باوجود فلم کی پروڈکشن بڑے پردے پر ناقص دکھائی دی، خاص طور پر پاکستان میں عکس بند ہونے والے کئی مناظر واضح طور پر دھندلے محسوس ہوئے۔ ترکی میں عکس بند کیے ہوئے ایکشن کے مناظر اور بالخصوص گاڑیوں کی ریس تکنیکی طور پر بہت غیر معیاری محسوس ہوئی، البتہ انگلینڈ کے مناظر شاندار طریقے سے عکس بند کیے گئے۔
مجموعی طور پر فلم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بڑے بڑے نام محض کاغذی کارروائی کی حد تک استعمال کیے گئے اور عملی طور پر یہ فلم اتنی وزنی نہیں تھی جتنا اس کے بارے میں بتایا گیا تھاکیونکہ اس میں کوئی 6 پروڈکشنز ادارے شامل ہیں، جن کا یہ پروجیکٹ ہے۔
فلم کا بین الاقوامی باکس آفس کا بزنس تو خراب ہوا لیکن پاکستان میں بھی اس فلم کی تازہ صورتحال اچھی نہیں ہے۔ اس کو فلموں کے تقسیم کار ادارے ’آئی ایم جی سی‘ نے پیش کیا۔
ہدایت کاری
اس فلم کے ہدایت کار شان شاہد ہیں، جنہوں نے اپنی ہدایت کاری کی شروعات 90 کی دہائی کے آخری برسوں سے کی۔ ان کی پہلی ہدایت کردہ فلم ’گنز اینڈ روزز، ایک جنون‘ اپنے وقت کی ایک اچھی فلم تھی، جو 1999 میں ریلیز ہوئی تھی۔
اس تناظر میں ’ضرار‘ کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ شان شاہد اب تک اسی ناسٹیلجیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور جمود کا شکار ہیں۔ انہوں نے اپنی پہلی فلم کا موضوع، اس کو فلمانے کا انداز، اس کہانی کے کردار، سب کچھ دوبارہ اپنی اس نئی فلم میں دہرایا ہے۔ صرف بجٹ کا فرق ہے، زیادہ بجٹ کی وجہ سے اس فلم کو بیرونِ ملک بھی عکس بند کیا گیا۔ فلم کی طوالت بھی غیر ضروری تھی۔
شان شاہد نے ڈارک تھیم کے تحت مناظر کو عکس بند کیا اور یہ ان کا پرانا انداز ہے۔ زیرِ نظر فلم میں فیس پورٹریٹ فریمنگ بہت زیادہ کی گئی ہے، جو فلم میں بہت بُری محسوس ہوئی۔ پھر سب سے بھیانک پہلو اس فلم کا یہ ہے، ہدایت کار کو پتہ ہی نہیں کہ اس کو یہ فلم اردو میں بنانی تھی یا انگریزی میں۔
مجموعی طور پر 70 فیصد فلم انگریزی اور 30 فیصد اردو میں ہے اور ان کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں بن رہا۔ اس مزاج نے فلم کے مجموعی تاثر کو بُری طرح متاثر کیا۔ ساتھ لائٹنگ، کاسٹیومز اور پورا فلم پروڈکشن غیر معیاری رہا۔
اس پوری فلم میں صرف ایک کام کی چیز یہ رہی کہ ہدایت کار کو گرافک ڈیزائنر اچھا مل گیا، جس نے کمپیوٹر اسکرینز والے شاٹس کو بہت اچھی طرح ڈیزائن کیا۔ فلم کے کریڈیٹس کے مطابق اس گرافک ڈیزائنر کا نام مبین ریاض ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان شاٹس کو بھی بار بار غیر ضروری طور پر فلم میں دہرایا گیا۔ البتہ کچھ فائٹنگ سینز اچھے تھے۔
فلم میں بہت ساری تکنیکی غلطیاں ہیں جو اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ ضروری نہیں کہ جو اچھا اداکار ہو، وہ اچھا ہدایت کار بھی ہو۔ شان شاہد کو اس پہلو سے اب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، وگرنہ ان کی ہدایت کاری کی یہ ناکام فہرست مزید طویل ہوتی رہے گی۔ البتہ ایک بات کی تعریف بنتی ہے کہ اس فلم کا ٹریلر بہت اچھا کاٹا گیا، کاش فلم بھی ویسی ہی بنائی ہوتی۔
کہانی نویسی
اس فلم کو لکھا بھی شان شاہد نے ہے۔ انہوں نے جب معروف ہدایت کار بلال لاشاری کی فلم ’وار‘ میں کام کیا تو اس کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، وہیں سے اس طرز کی فلمیں ہمارے ہاں بننے کا سلسلہ شروع ہوا، جن میں 021 سمیت یلغار اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔
اسی بھیڑ چال کے متاثرین میں سے ایک شان شاہد بھی تھے اور انہوں نے ضرار بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو دشمنوں سے خطرہ ہے، جس کی حفاظت کے لیے ایک وطن سے محبت کرنے والا دلیر سابق فوجی اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ وہ کیسے اپنے مشنز کو مکمل کرتا ہے، ان کو دکھایا گیا ہے۔
اس فلم کی کہانی اور خیال بہت عمدہ تھا لیکن شان شاہد اس موضوع سے انصاف نہیں کرپائے جس کی وجہ سے فلم کی کہانی کا کوئی تانا بانا نہیں بن سکا۔ ایک بڑا موضوع اس فلم میں ضائع کر دیا گیا۔
اداکاری
اس فلم کے اداکاروں میں شان شاہد کے ساتھ معروف پاکستانی اداکار ندیم بیگ تھے، اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اداکاری کے شعبے میں یہ دونوں اداکار حقیقی معنوں میں بڑی اسکرین کے ستارے ہیں جن کا پورا کیریئر فلم کے پردے پر محیط ہے۔ اس فلم میں دونوں نے ساتھ کام کیا اور دونوں نے اپنے کام سے بخوبی انصاف کیا بلکہ اس فلم سے پاکستانی فلمی صنعت کو ملنے والی ایک نئی اداکارہ ’کرن ملک‘ نے اپنی اداکاری سے حیران کیا۔
شفقت چیمہ، نیر اعجاز اور رشید ناز نے حسبِ روایت وہی لگی بندھی اداکاری کی جس کو اب پاکستانی فلم بین نہیں دیکھنا چاہتے۔ ولن کے طور پر نئے اداکار عدنان بٹ نے متوازن اداکاری کی۔ کچھ غیر ملکی اداکاروں نے بھی اس فلم میں کام کیا ہے اور یہ اس فلم کا بہت مثبت پہلو رہا کہ انہوں نے اپنے کام کو بہت اچھے سے نبھایا۔ مجموعی طور پر پوری فلم میں سب سے مضبوط شعبہ اداکاری ہی ثابت ہوا۔
موسیقی و دیگر شعبہ جات
اس فلم کی موسیقی کا کوئی سر پیر سمجھ نہیں آیا۔ انتہائی بے تکے چند گیت جو بے سرے بھی تھے، ماسوائے عابدہ پروین کے ایک کلام کے، جس میں کچھ نیا نہیں تھا بلکہ پرانی دھن کو نئے چہروں پر فلما دیا گیا۔ راحت فتح علی خان کی آواز میں بھی بے رس گیت فلم کاحصہ بنایاگیا۔
موسیقاروں کی فہرست میں یاسر جسوال اور تھامس فرنن شامل ہیں مگر دونوں ہی اپنے کام سے متاثر نہ کرسکے۔ ہدایت کار فلم کے مزاج کے مطابق ایک گیت بھی تخلیق نہ کر پائے اور بھلا اس سے خراب پہلو کسی فلم کے موسیقار اور ہدایت کارکے لیے اور کیا ہوسکتا ہے، جبکہ ماضی میں شان شاہد کی فلموں کی موسیقی متاثر کن رہی ہے لیکن اس مذکورہ فلم میں موسیقی کا شعبہ فارغ ہی رہا۔ فلم میں تدوین کاری، ملبوسات، عکاسی، ویژول افیکٹس، ساؤنڈ اور دیگر شعبے بھی غیر متاثر کن ثابت ہوئے۔
حرف آخر
پاکستانی فلم سازوں کو ایک بات بہت واضح طور پر سمجھنی ہوگی کہ اب ان کی بنائی ہوئی فلموں کا موازنہ دنیا بھر کے سینما سے کیا جاتا ہے کیونکہ عالمی سینما اب اسٹریمنگ پورٹلز کی صورت میں فلم بینوں کی جیب میں ہے، تو ایسی صورت میں وہ کیوں آپ کی فلمیں دیکھنے سینما آئیں؟ یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب آپ اپناکام ٹھیک طریقے سے کریں، وگرنہ فلم بین کے پاس اب سینما دیکھنے کے دوسرے بہت سارے آپشنز ہیں، جس سے وہ آپ کی فلم کے لیے خریدے جانے والی ٹکٹ کی رقم سے استفادہ کرسکتا ہے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔