جسٹس سعید الزماں صدیقی: پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک اہم باب
آج پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب سعید الزماں صدیقی مرحوم کا یومِ وفات ہے۔ وہ ہماری عدالتی تاریخ کا اہم نام ہیں۔ جب کبھی مؤرخ پاکستان کی عدالتی تاریخ لکھےگا تو اس میں سعید الزماں صدیقی کا باب بہت خاص ہوگا۔
وہ ایک راست باز اور نڈر وکیل اور جج تھے جنہوں نے انتہائی لگن اور استقامت کے ساتھ نہ صرف عدالت میں اپنے مؤکلوں کی نمائندگی کی بلکہ بحیثیت جج کئی اہم اور دبنگ فیصلے بھی کیے۔
آپ یکم دسمبر 1937ء کو کلکتہ کے ایک پڑھے لکھے، متوسط، اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم لکھنؤ اور ڈھاکہ میں حاصل کی تھی۔ آپ ڈھاکہ سے انجینئرنگ سائنسز میں انٹر کرنے کے بعد کراچی آگئے تھے۔ 1954ء میں جامعہ کراچی میں داخلہ لیا، 1958ء میں فلسفہ اور ایل ایل بی کرنے کے بعد 1960ء میں سندھ ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔ آپ 1970ء کی دہائی میں بار کی سیاست میں بھی خاصے سرگرم رہے اور پھر 1980ء میں سندھ ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔
آپ 1990ء میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے لیکن پھر ایک ماہ بعد ہی آپ سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ آپ کے قریبی دوستوں اور بار کے ساتھیوں میں سابق وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سید شریف الدین پیرزادہ، سابق اٹارنی جنرل عزیز اے منشی اور ریٹائرڈ جسٹس جی ایچ ملک شامل تھے۔ سعید الزماں صدیقی سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کانفلیکٹ ریزولیوشن سینٹر نامی قانونی ادارہ چلانے کے علاوہ ڈیفنس ریزیڈنس ایسو سی ایشن کا بھی حصہ رہے۔
2008ء میں انہوں نے پرویز مشرف کی جگہ صدر بننے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے امیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا، لیکن صدارتی انتخابات میں آصف علی زرداری سے 153 ووٹوں سے ہار گئے۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی کو 2013ء میں دوبارہ صدارت کے لیے منتخب کیا گیا لیکن آخری وقت پر ان کا نام ممنون حسین کے نام سے تبدیل کردیا گیا۔
یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ جب سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے 1999ء میں فوجی بغاوت کی تو جسٹس سعید الزماں صدیقی اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ جنوری 2000ء میں جسٹس صدیقی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ آئین سے انحراف ہوگا اور کہا تھا کہ میں نے 1973ء کے آئین کے دفاع کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے سے استعفیٰ دینے کی خبر عام ہونے کے بعد انہیں آسٹریلیا اور کینیڈا کی عدالتی برادری کی اعزازی رکنیت سے بھی نوازا گیا۔
وزیرِاعظم نواز شریف نے سندھ کے 31ویں گورنر کے لیے سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ نامزد کیا تھا لیکن جسٹس سعید الزماں صدیقی، گورنر سندھ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے تقریباً 2 ماہ کی علالت کے بعد 11 جنوری 2017ء کو انتقال کر گئے۔
جس وقت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ میں رنجشیں پیدا ہوئیں تو جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں بننے والے ایک بینچ نے سجاد علی شاہ کو معطل کر دیا تھا۔ پھر درمیان میں جسٹس اجمل میاں چیف جسٹس بنے اور ان کے بعد آپ اس اہم مقام پر پہنچے۔ لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ جب جنرل مشرف نے عبوری آئینی حکم کے تحت جسٹس سعید الزمان صدیقی سے حلف لینا چاہا تو اس انکار کے نتیجے میں انہیں فارغ کردیا گیا۔
2006ء اور 2008ء میں جسٹس سعید الزماں صدیقی سے ان کے ڈیفنس لائبریری کے سامنے والے گھر میں ان سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس گھر میں انہوں نے اپنا دفتر بھی بنایا ہوا تھا۔ وہ چائے اور بسکٹ سے تواضع کرتے، چائے تو عموماً گفتگو کے دوران ٹھنڈی ہوجاتی تھی پھر وہ آخر میں دوبارہ ضرور گرم چائے منگواتے تھے۔
وہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والی ضرب المثل نہیں تھے بلکہ ان کی زندگی میں کئی طوفان آئے اور گزرگئے لیکن وہ اپنے اصولوں کے ساتھ جمے رہے۔ آپ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے سنجیدہ، سادہ اور خاکسارانہ شخصیت کے مالک تھے۔ ٹھہراؤ اور دھیما پن ان کی طبیعت کا خاصا تھے۔ وہ ’پہلے تولو پھر بولو‘ کی مثال پر پورے اترتے تھے۔
ان سے میری ہر ملاقات میں پاکستان کی سیاست، جمہوریت، آمریت اور عدلیہ اور اس میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق کئی ایسے اہم تاریخی گوشوں پر تبادلہ خیال رہا جو نہ صرف سیاسی کارکنوں بلکہ سیاست کے طالب علموں کے لیے یقیناً بہت اہم ہے کیونکہ اس میں ان کی زندگی کا نچوڑ اور تجربے اور تجزیے کا بے باک اظہار ہے۔ اس میں تلخ تاریخ کے ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور بدقسمتی سے جب یہ تحریر پڑھی جارہی ہوگی تو آج کی سیاسی، عدالتی اور عسکری صورتحال میں بہت زیاہ فرق نہیں لگے گا۔ میں نے ایک نشست میں ان کے خیالات اور نظریات کے حوالے سے آگاہی چاہی تو سعید الزماں صدیقی کا کہنا تھا کہ
’ملک میں ہر حال میں قانون اور دستور کی بالادستی کو قائم ہونا چاہیے۔ سیاست ایک ایسا اہم اور عبادت والا پیشہ ہے جس میں آپ اس عہد کے ساتھ داخل ہوتے ہیں کہ آپ لوگوں کی خدمت کریں گے۔ اگر یہ نہیں تو پھر اس کا نام سیاست نہیں کچھ اور ہوجاتا ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول بالکل مختلف ہے اور اس سیاسی ماحول میں اس قسم کے نظریات کا ہم پرچار ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے نظریات سے متفق ہونے والوں کی تعداد اتنی ہوجائے جو نظام پر اثرانداز ہوسکے تو پھر کسی نظریاتی پارٹی کو قائم کرنے کا سوچا جاسکتا ہے۔‘
اسی طرح ایک دن گفتگو اس جانب چل نکلی کہ انہوں نے کسی سیاسی جماعت میں کیوں شمولیت اختیار نہیں کی یا کوئی اپنی کوئی سیاسی جماعت کیوں نہیں بنائی؟ انہوں نے واضح اور صاف بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی پارٹی میں شمولیت کے لیے رابطہ کیا، لیکن میں نے ان کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا کیونکہ میں موجودہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ چل نہیں سکتا تھا۔ میرے نظریات بہت ساری پارٹیوں کے نظریات سے متصادم ہیں‘۔
دوسری بات وہ یہ کہتے تھے کہ ’آپ کسی پارٹی میں شامل ہوجائیں تو وہ وسعتِ نظر نہیں رہتی اور آپ پارٹی کے ڈسپلن سے وابستہ اور اس کے پابند ہوجاتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ سیاست کوئی پیشہ نہیں ہے بلکہ سیاست ایک عبادت ہے جس کے تحت آپ ملک و قوم کی خدمت کرنے کا تہیہ کرتے ہیں۔ اگر میں کبھی یہ محسوس کروں کہ میرے پاس اتنی طاقت، وسائل اور لوگ ہیں جو اس مشن پر چل سکتے ہیں تو میں یقیناً غور کروں گا کہ اس مرحلے میں بھی داخل ہوا جائے‘۔
وہ کہتے تھے کہ ’طلبہ یونین پر پابندی کوئی اچھا اقدام نہیں تھا۔ اس پابندی کے منفی اثرات زیادہ ہوئے کیونکہ یونین سرگرمیوں کے نتیجے میں شعور اور لیڈرشپ پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی مشنری ہے جس سے آپ لیڈر تیار کرتے ہیں۔ طلبہ کو کالج اور جامعات کی سطح پر یونین بنانی چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ اپنے مسائل کا ادراک کریں اور سوسائٹی بنائیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں مسائل اس لیے ہیں کہ ان پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں ہے‘۔
جسٹس سعید الزماں صدیقی ہماری سیاسی تاریخ کے اہم دور میں چیف جسٹس رہے اور اس دور کی سیاست اور عدالتی فیصلوں کے اثرات آج بھی ہماری سول اور فوجی قیادت اور ملکی سیاست پر موجود ہیں۔ میں نے ایک ملاقات میں سعید الزماں صدیقی سے پوچھا کہ 1999ء میں بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان آپ کی ایک خصوصی ملاقات جنرل پرویز مشرف سے ہوئی تھی۔ اس کی کیا تفصیلات ہیں؟
سعید الزماں صدیقی نے بتایا کہ ’12 اکتوبر 1999ء کو جب فوجی انقلاب آیا تو اس وقت میں اسلام آباد میں تھا اور ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا کہ اس کی نشریات اچانک غائب ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد مجھے پتا چلا کہ وزیرِاعظم کو معزول کرکے فوج نے ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ ہمارے یہاں پہلے بھی اس طرح ہوتا رہا ہے اس لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، سوائے اس کے کہ ایک ایسے وزیرِاعظم کا تختہ الٹا گیا جس کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ اسی روز رات ساڑھے 10 بجے کراچی سے جنرل پرویز مشرف صاحب کا فون آیا اور انہوں نے پوری روداد بتائی کہ میں سری لنکا سے آرہا تھا اور جہاز کو کس طرح روکا گیا، اس کو اترنے نہیں دیا گیا، بڑی مشکلوں سے یہاں کراچی کے کور کمانڈر کی آمد سے جہاز اترا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے کہاکہ آپ کل کے بجائے پرسوں (14 اکتوبر) اسلام آباد میں میری رہائش گاہ پر مجھ سے مل سکتے ہیں۔
’پھر وہ وہاں تشریف لائے اور میری پہلی ملاقات ان سے تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ ان سے میں نے پوچھا کہ آپ کا ایجنڈا کیا ہے؟ انہوں نے کہاکہ میرا تو کوئی ارادہ نہیں تھا حکومت کو ٹیک اوور کرنے کا، لیکن جو واقعہ پیش آیا اس پر فوج میں ردعمل ہوا جس کے نتیجے میں حکومت کو معزول کرنا پڑا۔ میرا ایجنڈا بہت ہی مختصر سا ہے۔ میں اقتدار میں زیادہ عرصہ نہیں رہنا چاہتا۔ جمہوری اداروں کو قائم کرکے واپس چلا جاؤں گا۔ میں نے ان سے دو باتوں کی وضاحت چاہی۔ ایک یہ کہ کیا آپ عدالتوں کے معاملات میں مداخلت کریں گے؟ انہوں نے کہاکہ نہیں ہم عدالتوں کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے اور عدالتیں اسی طرح آئین کے تحت کام کرتی رہیں گی۔ دوسری بات میں نے ان سے یہ پوچھی کہ کیا آپ آئین میں کسی قسم کی ترمیم لائیں گے؟ اس کا جواب بھی انہوں نے نفی میں دیا‘۔
اس ضمن میں ہی میں نے ان سے پوچھا کہ جب جنرل مشرف نے یہ کہا تھا کہ وہ مختصر ایجنڈے کے ساتھ آئے ہیں تو آپ کو ماضی کے قابض فوجیوں کا دور تو یاد آیا ہوگا؟ اس پر جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا کہ ’جی ہاں میں نے ان کو یاد دہانی کروائی کہ آپ سے پہلے بھی لوگ 90 دن کا وعدہ کرکے آئے اور 11 سال تک بیٹھے رہے۔ اس پر انہوں نے پُرزور انداز میں کہا کہ میں نہ تو ضیاالحق ہوں اور نہ ہی ایوب خان۔ میری تو اپنی الگ حیثیت اور شخصیت ہے‘۔
میں نے ایک موقع پر جسٹس سعید الزماں صدیقی سے سوال کیا کہ آپ نے جنرل مشرف سے بعد میں ایک ملاقات میں کہاکہ آپ (جنرل مشرف) پی سی او واپس لے لیں تو میں ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ آپ نے کس قسم کا ساتھ دینے کی بات کی تھی؟
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’میں نے ان سے یہ نہیں کہا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ کا ایجنڈا صرف یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ملک کی دولت لوٹی ہے تو اس معاملے میں عدالت کسی قسم کی تعرض نہیں کرے گی اور اس میں تعاون بھی کیا جاسکتا ہے‘۔
وہ صاف لفظوں میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کو آئینی اور قانونی لحاظ سے درست نہیں کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مشرف کا قبضہ بالکل غلط تھا، آئینی لحاظ سے اس کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ اس پر ہی میں نے ان سے پوچھا جب یہ سب غیر آئینی اور غلط تھا تب بھی آپ ان سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہوگئے؟
اس پر جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ ’اس وقت زمینی حقائق یہ تھے کہ وہ حکومت پر قبضہ کرچکے تھے اور اس کو ختم کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا کہ عدالت میں کیس کو دیکھا جائے اور جانچا جائے کہ اس کی آئینی حیثیت کیا ہے۔ یہی بات میں نے اس وقت دولتِ مشترکہ کے مشن کے وفد کو بھی کہی تھی کہ مشرف صاحب کے ٹیک اوور کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا، یہ کیس ابھی ہمارے پاس التوا میں ہے۔ اس میں ہم ابھی یہ دیکھیں گے کہ اس کی آئینی حیثیت کیا ہے، اس کے بعد ہی یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ یہ قدم آئینی طور پر قابلِ قبول ہے یا نہیں‘۔
انہوں نے مزید بتایاکہ اس دوران ان کی جنرل مشرف سے پھر ایک ملاقات ہوئی تھی۔ جس کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’25 جنوری 2000ء کو مجھے طارق عزیز صاحب نے پیغام دیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد وزیرِاعظم ہاؤس میں میری ان سے عصر کے بعد ملاقات ہوئی۔ وہاں انہوں نے پہلی دفعہ بتایا کہ ان کے معاملات خراب ہوتے جارہے ہیں اور جو وعدے انہوں نے لوگوں سے کیے تھے وہ پورے نہیں کر پا رہے ہیں۔ مجھ سے متعلق انہوں نے کہا کہ آپ نے کیونکہ مجھ سے پوری طرح تعاون نہیں کیا اس لیے میں نے اب یہ ارادہ کیا ہے کہ ججوں کو ایک نیا حلف دیا جائے۔
’اس پر میں نے احتجاج کیا اور کہا کہ آپ 14 اکتوبر 1999ء کو جب میرے گھر تشریف لائے تھے تو یہ کہا تھا کہ ججوں کو کوئی نیا حلف نہیں دیا جائے گا اور وہ اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔ پھر میں نے ان کے وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور سیکرٹری قانون کے ان بیانات کا ذکر کیا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ججوں سے کوئی نیا حلف نہیں لیا جائے گا اور نہ حکومت کا کوئی ایسا ارادہ ہے‘۔
مزید تفصیلات بتاتے ہوئے جسٹس سعید الزماں صدیقی کا کہنا تھا ان کے خیال میں ’وہ [جنرل مشرف] اپنا ذہن پہلے ہی بناچکے تھے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے وعدے سے انحراف کررہے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے قانونی مشورہ یہی دیا گیا ہے کہ میں ججوں سے نیا حلف لوں۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ حلف لینا چاہتے ہیں تو لیں لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں حلف نہیں اٹھاؤں گا اور یہ میں آپ کو پہلے بھی بتاچکا ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ میرے ایڈوائزر شریف الدین پیرزادہ سے بات کرلیں۔ اس کے جواب میں، میں نے ان سے کہا کہ جو بات میرے اور آپ کے درمیان 14 اکتوبر 1999ء کو ہوئی تھی اس میں شریف الدین پیرزادہ موجود نہیں تھے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ان سے ملنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے‘۔
جسٹس سعید الزماں صدیقی نے مجھے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’جب انہوں نے بہت اصرار کیا تو پھر میں بات کرنے پر تیار ہوگیا۔ میں نے شریف الدین پیرزادہ اور عزیز منشی صاحب جو اس وقت وزیرِ قانون بھی تھے، ان سے بات چیت کی اور کہا کہ جنرل صاحب بیٹھے ہیں، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کسی قسم کا حلف نہیں لیا جائے گا، جس پر شریف الدین پیرزادہ صاحب نے صدر صاحب کی بہت زیادہ وکالت کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ اس طرح ججوں نے حلف لیے ہیں۔ اس پر میں نے جواب دیا کہ یہ بات آپ عدالت میں آکر کریں، یہاں یہ بات طے نہیں ہوسکتی۔ یہاں تو میں اکیلا ہوں اور اگر آپ وہاں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یہ ٹیک اوور آئین کے مطابق ہے، تو یقیناً آپ کے حق میں فیصلہ ہوجائے گا‘۔
اس پر وہ مجھ سے کہنے لگے کہ ’نہیں آپ ہمیں یقین دہانی کرائیں، میں نے کہا میں آپ کو کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرواسکتا۔ اس کے بعد میٹنگ ختم ہوگئی اور میں یہ کہہ کر چلا آیا کہ کم از کم میں صبح حلف نہیں اٹھاؤں گا۔ پھر میں نے گھر آکر اپنے رفقا کو بتایا، خلیل الرحمٰن صاحب کا بھی فون آیا، انہوں نے مجھ سے تفصیلات دریافت کیں اور پوچھا آپ کا کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا میں نے اپنی ذات کی حد تک تو منع کردیا ہے اور غالباً سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ وہ صبح حلف نہیں اٹھائیں گے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں بھی حلف نہیں اٹھاؤں گا۔ باقی پنجاب اور سرحد کے ججوں کو میں نے پیغام دے دیا تھا لیکن وہ مجھ سے ملنے نہیں آئے، رات ہی کو 9، ساڑھے 9 بجے [بلوچستان ہائی کورٹ کے] چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری (جو اس وقت معطل تھے) انہوں نے فون کرکے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہوا، آپ سے کیا بات ہوئی؟ میں نے ان کو پوری تفصیل بتادی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا فیصلہ ہے؟ میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنادیا۔ میں نے ان سے یہ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا کہ آپ کا کیا خیال اور ارادہ ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ اگلے دن حلف لینے والوں میں وہ بھی شامل تھے‘۔
ایک بار ملاقات میں جب میں نے جسٹس صدیقی سے پوچھا کہ ’شریف الدین پیرزادہ تو آپ کے دوست بھی رہے ہیں اور آپ کو جج بنانے میں بھی ان کا اہم کردار ہے؟ اس پر سعید الزماں صدیقی نے کہا ’جی ہاں، انہوں نے ہی میرا نام ہائی کورٹ کے جج کے لیے تجویز کرکے بھیجا تھا۔ میری ان سے پہلی ملاقات 1969ء میں ہوئی تھی، اس وقت میں کراچی میں پریکٹس کرتا تھا۔ اپنے ایک کلائنٹ کے کیس کے سلسلے میں انہیں میں نے انگیج کیا تھا۔ اس کے بعد ہمارے تعلقات بہت ہی قریبی ہوگئے تھے اور ایک ہی عمارت میں آفس بھی ہوگیا تھا۔ تقریباً 11 سال تک ہائی کورٹ کا جج بننے تک میرے ان سے قریبی تعلقات رہے‘۔
میں نے استفسار کیا کہ ’پھر تعلقات کیوں خراب ہوگئے؟‘ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’جج بننے کے بعد میں نے ان کا ایک کیس جو ’ہلٹن‘ کے نام سے بہت مشہور ہے، اس کے خلاف ایک آرڈر کیا تھا۔ اس کے بعد سے ان سے تعلقات خراب ہوگئے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں نے ان سے زیادتی کی‘۔
کیونکہ شریف الدین پیرزادہ ہماری سیاسی، عسکری اور عدالتی تاریخ میں بہت اہم رہے ہیں اسی لیے میں نے یہ بھی پوچھ لیا کہ ’اسپیکر مولوی تمیزالدین نے اسمبلی کی تحلیل کے خلاف عدالتوں میں جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت ان کے وکلا میں شریف الدین پیرزادہ بھی شامل تھے لیکن بعد میں ان کی سب سے بڑی وجہ شہرت فوجی حکمرانوں کے لیے اقتدار پر قابض رہنے کا قانونی جواز فراہم کرنا بن گئی، ان کے اندر یہ تبدیلی کہاں سے آئی؟
جسٹس سعید الزماں صدیقی نے میری بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ جب تمیزالدین کیس 1954ء میں شروع ہوا تھا تو اس وقت شریف الدین پیرزادہ کا آغاز تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت ذہین آدمی ہیں، قانون پر دسترس بھی اچھی رکھتے ہیں اور اس کیس میں آئی آئی چندریگر صاحب اور وہ اس کیس کی پیروی کررہے تھے۔ شریف الدین پیرزادہ ان کی معاونت کررہے تھے۔ اس کیس کو داخل کرنے میں شریف الدین صاحب نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ حکومت نے ہر حربہ استعمال کیا کہ مولوی تمیزالدین کیس داخل نہ کرسکیں۔ چیف کورٹ آف سندھ میں مولوی تمیز الدین کو رکشے میں مرغا بناکر لائے تھے اور اس وقت سجاد علی شاہ صاحب کے والد روشن علی شاہ صاحب ڈپٹی رجسٹرار کے سامنے شریف الدین پیرزادہ نے مولوی تمیزالدین کو پیش کیا اور وہاں ان کا حلف نامہ سائن کروایا تھا۔ اس زمانے میں یہ بڑا پُرخطر کام تھا۔
’اس کیس میں انہوں نے بہت کام کیا تھا لیکن اس کے بعد ایوب خان کے دور میں وہ تبدیل ہوگئے۔ غالباً وہ اپنی تکنیکی مہارت اور قانون پر دسترس سے یہ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کہ جو لوگ اقتدار میں ہوں وہ ان کے قریب رہیں۔ اس لیے انہوں نے ایوب خان کی حکومت کا دفاع کیا اور بڑی کامیابی سے کیا۔ اس کے بعد یحییٰ خان کے زمانے میں وہ اٹارنی جنرل تھے۔ ان کا سب سے کامیاب دور ضیاالحق کا دور تھا اور آخری دور مشرف صاحب کا تھا۔ اس طرح آپ دیکھیں اس ملک میں 4 فوجی حکومتیں قائم ہوئیں اور شریف الدین پیرزادہ کا ہر حکومت کے ساتھ گہرا اشتراک رہا۔ انہوں نے قانونی اور دستوری مسائل حل کرنے میں فوج کو مدد دی جس کے تحت ان فوجی حکومتوں کو دوام حاصل ہوا‘۔
بات سے بات نکلی اور اس دوران جنرل مشرف کا ذکر آیا تو میں نے ان کی طرف ذرا جھک کر آنکھوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس صاحب، جنرل پرویز مشرف کو شریف الدین پیرزادہ کے گھر کا راستہ آپ نے ہی دکھایا تھا؟‘
اس پر سعید الزماں صدیقی نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے کہا تھا ’جی، مجھ سے جنرل پرویز مشرف نے پوچھا کہ ملک کے سب سے اچھے وکیل کون ہیں؟ میں نے 3 آدمیوں کے نام بتائے تھے، ان میں فخرالدین جی ابراہیم، ایس ایم ظفر اور شریف الدین پیرزادہ کے نام تھے‘۔
جسٹس سعید الزماں صدیقی کو ایک موقع پر میں نے یاد دلایا کہ آپ سے جرنیلوں کے ایک وفد نے بھی ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں کیا ہوا تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ ’جی ہاں، رات 9 بجے کے قریب جی ایچ کیو سے مجھے پیغام آیا کہ 3 جرنیل آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا خوش آمدید، آپ آجائیں۔ ان میں جنرل معین الدین حیدر، جنرل احسان الحق اور جنرل محمود صاحب تھے۔ ان سے تقریباً رات 12 بجے تک ملاقات رہی۔ وہ بھی مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ میں قومی مفاد میں حلف لے لوں۔ میں نے ان کو تفصیلاً جواب دیا کہ جس کو آپ قومی مفاد کہہ رہے ہیں وہ تو قومی سانحہ ہوگا۔ بہرحال بہت دیر تک یہ مباحثہ چلتا رہا۔
’ان میں سب سے زیادہ پُرجوش اور اس فوجی انقلاب کے بانیوں میں سے ایک، جنرل محمود تھے۔ انہوں نے ہی نواز شریف کو گرفتار بھی کیا تھا۔ جب کوئی بات نہ بنی تو جاتے وقت انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر صبح 6 بجے دوبارہ رابطہ کریں گے، اگر آپ اپنا فیصلہ تبدیل کرلیں تو ہمیں بتا دیجیےگا۔ 6 بجے کے قریب ایم آئی کا کرنل جاوید آیا، اس نے وہی سوال پوچھا کہ آپ سے ملاقات ہوئی تھی اس کا جواب چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس کا جواب وہی ہے جو آپ کے جرنیلوں کو میں نے دیا تھا کہ میں حلف نہیں اٹھاؤں گا۔ پھر اس نے مجھے کہاکہ جی ایچ کیو کی طرف سے آپ کے لیے یہ پیغام ہے کہ آپ 11 بجے تک گھر سے باہر اور کورٹ نہیں جائیں گے۔ پھر بھی انہوں نے احتیاط کے طور پر گھر کے چاروں طرف آرمی کے لوگ کھڑے کردیے تھے۔ صبح سویرے عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب اور لاء کمیشن کے فقیر محمد صاحب جو کچھ فائلیں لے کر آنا چاہتے تھے، ان کو بھی نہیں آنے دیا گیا۔ میرا ڈرائیور گاڑی نکالنا چاہتا تھا اس کو بھی نہیں نکلنے دیا۔ پھر جب نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھالیا تو پہرے ہٹادیے گئے‘۔
میں نے جسٹس صدیقی سے کہا کہ اس وقت آپ چیف جسٹس آف پاکستان تھے، آپ نے مزاحمت کیوں نہیں کی اور اس وقت کے ’افتخار چوہدری‘ کیوں نہیں بن گئے؟ اس پر جسٹس سعید الزماں صدیقی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’میں سمجھتا تھا اس وقت یہ مناسب نہیں تھا۔ اس وقت ہمارے ساتھی حلف لینے کے لیے تیار ہوگئے تھے تو میں کسی قسم کا کوئی فساد نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اس وقت حالات اتنے اچھے نہیں تھے۔ افتخار چوہدری کے اسٹینڈ لینے اور میرے معاملے میں فرق ہے۔ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تھا، مجھ سے استعفیٰ نہیں مانگا تھا۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ آپ جائیں نہیں، ان سے کہا گیا کہ آپ چلے جائیں‘۔
یہاں ایک اور سوال بنتا تھا اور میں نے پوچھ بھی لیا کہ ’اسی شام ایک استقبالیے میں آپ سمیت 5 ججوں نے جسٹس ارشاد حسن سے شیلڈز بھی وصول کیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’وہ ہمارے ساتھی تھے، انہوں نے ہمیں اسلام آباد کلب میں کھانے پر بلایا تھا‘۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’تو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں نے آئین کی پاسداری کرنے والوں کے اعزاز میں دعوت دی؟‘ انہوں نے جواب دیا ’جی ہاں‘۔
میں نے ایک سوال اس وقت اور حالات کے پس منظر میں یہ بھی پوچھا تھا کہ ’آپ افتخار چوہدری اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان اچانک خراب ہونے والے تعلقات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟‘ تو اس پر آپ کا کہنا تھا کہ ’افتخار چوہدری کے تعلقات جنرل پرویز مشرف سے 9 مارچ سے قبل اچھے تھے اور ان کی اچھی ورکنگ ریلیشن شپ تھی اور صدر کے کہنے کے مطابق تو وہ اکثر ان کے گھر بھی جایا کرتے تھے، اپنی فیملی کے ساتھ بھی جاتے تھے اور ایک بار تو ٹی وی پر آکر انہوں نے سپریم کورٹ کی کارکردگی بھی پیش کی تھی جس پر میں نے بڑا احتجاج بھی کیا تھا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے اور کسی نے نہ کبھی ایسا کیا ہے اور نہ کرنے کا اختیار ہے، کیونکہ سپریم کورٹ ایک بااختیار ادارہ ہے جو کسی بھی صدر اور وزیرِاعظم کے ماتحت نہیں ہے۔ غالباً اس احتجاج کو چیف جسٹس صاحب نے پسند نہیں کیا تھا۔ شاید جنرل پرویز مشرف سے اسٹیل مل اور گمشدہ افراد کے کیسز میں مداخلت اور فیصلوں کے بعد افتخار چوہدری کے تعلقات خراب ہوئے‘۔
’انہوں نے پی سی او کے تحت ہی بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا حلف اٹھایا تھا، لیکن بات یہ ہے کہ انسان میں کسی وقت کوئی تبدیلی آجاتی ہے اور وہ اس بات کو تسلیم کرلیتا ہے کہ پہلا قدم غلط تھا اور اگلا قدم صحیح اٹھانے پر تیار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ انسان سے غلطی ہوسکتی ہے اور وہ اسے تسلیم کرلے تو بڑی بات ہے‘۔
اس پر میں نے سعید الزماں صدیقی سے کہا کہ افتخار چوہدری کے دیر آید درست آید کو تو آپ تسلیم کرلیتے ہیں لیکن آپ نے سجاد علی شاہ کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر ججز کیس کے فیصلے کے بعد انہیں بھی کام کرنے دیا جاتا اور سینیارٹی کا معاملہ آئندہ کے لیے چھوڑ دیا جاتا تو شاید عدلیہ 2 حصوں میں تقسیم نہ ہوتی اور نوازشریف جو عدلیہ کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش میں تھے ان کو بھی فائدہ نہ پہنچتا؟
اس پر ان کہنا تھا کہ ’یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کو کوئی فائدہ پہنچا۔ آپ اس کو جس تناظر میں دیکھ رہے ہیں وہ غلط ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ ایک سینیئر جج موجود تھا۔ اصل میں ہندوستان میں بھی اندرا گاندھی کے زمانے میں ایسا ہی ہوا تھا، وہاں انہوں نے ایک جونیئر جج کو پروموٹ کردیا تھا لیکن وہاں کی روایات کے مطابق جتنے سینیئر جج تھے سب نے استعفے پیش کردیے تھے، تو اس لیے وہاں جب اس طرح کا کیس داخل ہوا تو کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کیونکہ تمام سینیئر جج استعفیٰ دے کر جاچکے ہیں، اب اگر ہم چاہیں بھی تو کسی کو ریلیف نہیں دے سکتے کیونکہ کوئی سینیئر جج ہے ہی نہیں۔ ہمارے یہاں صورتحال یہ نہیں تھی۔ جب فیصلہ آیا تو 2 سینیئر جج موجود تھے، اگر وہ استعفیٰ دے دیتے تو ایسا نہیں ہوتا اور شاہ صاحب کو تو آپشن دیا گیا تھا کہ ججز کیس کو اپنے اوپر نافذ کرلیں‘۔
اس سوال کے جواب میں جسٹس سعید الزماں صدیقی کا کہنا تھا کہ ’جوڈیشل ایکٹوازم امریکا سے شروع ہوا۔ اس کے بعد انڈیا کے اندر اس کی کافی ترویج ہوئی۔ ہمارے یہاں 1973ء کے دستور میں ایک اسپیشل پروویژن ہے جو دنیا کے کسی دستور میں نہیں ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کوئی ایسا معاملہ جو بنیادی حقوق سے متعلق ہو جس میں عام آدمی پر اثر پڑنے والا ہو تو وہ عدالت خود طے کرسکتی ہے اور اس کے تحت بے شمار کیسوں میں سپریم کورٹ نے کارآمد فیصلے دیے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز اور گمشدہ افراد کے کیس بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بڑی دانشمندی سے انہیں ڈیل کیا‘۔
کہا جاتا ہے کہ عدالت اور جج کو سماج سے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہونی چاہیے، لہٰذا میں نے ان سے ایک سوال پوچھا تھا کہ ماضی میں چیف جسٹس عبدالرشید اپنے آپ کو انتظامیہ سے دُور رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو گھر آنے سے روک دیا تھا کیونکہ وہ حکومت کے خلاف مقدمات کی سماعت کررہے تھے۔ لیکن اب ایسا کردار ڈھونڈے سے نہیں ملتا؟ اس پر سعید الزماں صدیقی نے کہا تھا کہ ’اگر ہم اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کی پابندی کریں تو سوائے اسٹیٹ فنکشن کے جج کسی تقریب میں نہیں جاسکتا، وہ عوامی معاملات میں دخل انداز نہیں ہوسکتا، عام آدمی کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ سکتا کیونکہ اگر جج ایکسپوز ہوجائے، پبلک پلیٹ فارم پر آجائے تو اس کے فیصلوں پر شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ فیصلے میرٹ پر کیے گئے ہیں یا کسی اور وجہ سے کیے گئے ہیں‘۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے مزید پوچھا تھا کہ اس طرح تو پھر ججوں کو ٹی وی بھی نہیں دیکھنا چاہیے اور اخبارات بھی نہیں پڑھنے چاہئیں؟ تو سعید الزماں صدیقی نے تسلیم کرتے ہوئے کہا ’بالکل، پرانے زمانے میں اگر آپ دیکھیں تو جج اخبار بھی نہیں پڑھتے تھے اور ٹی وی بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اب بھی یہ ممکن ہے کہ مقدمات سے متعلق کوئی خبر ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہیے‘۔
آج ایک بار پھر فوج کے سیاسی معاملات سے دُوری کی بات ہورہی ہے اور آئی ایس پی آر نے بار بار سیاسی پس منظر سے دُور رہنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک دور میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خط کو بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی اور میں نے اسی ضمن میں سعیدالزمان صدیقی سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا فوج نے واقعی پس منظر میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ سیاسی قوتوں کو سیاست کرنے کے لیے چھوڑ دینا چاہتی ہے؟ تو اس پر سعید الزماں صدیقی کا کہنا تھا کہ ’آپ نے بہت ہی اچھا سوال کیا۔ ملک کی 60 سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آپ دیکھیں گے کہ فوج نے کبھی بھی اس قسم کے فیصلے نہیں کیے جس سے فوج کو کُلّی طور پر سیاست سے علیحدہ کردیا جائے۔
’اگر آپ 1953ء میں چلے جائیں تو دیکھیں گے کہ پہلی مرتبہ فوج سیاست میں اس وقت آئی جب چیف آف آرمی اسٹاف ایوب خان کو وزیرِ دفاع بنایا گیا۔ اس کے بعد سے فوج کی پیشرفت بڑھتی رہی اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی چیف آف آرمی اسٹاف نے دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے جس میں انہوں نے نہ صرف یہ اسٹینڈ لیا ہے کہ فوج کو سیاست سے نکالا جائے بلکہ ایک سرکلر بھی جاری کیا جس میں فوجی افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں سے کسی بھی قسم کا تعلق نہ رکھیں۔
’ہمارے آئین کے اندر فوجیوں کے اختیار کو واضح کردیا گیا ہے۔ اس میں فوج کا کردار بحیثیت ادارے کے سول حکومت کے تابع ہے۔ ہر شخص جو فوج میں داخل ہوگا وہ ایک حلف لے گا جو شیڈول 7 میں ہے اور اس میں یہ الفاظ درج ہیں کہ میں پاکستان کے دستور کا دفاع کروں گا اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لوں گا‘۔
عامر اشرف جیو ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں۔ مضمون نگار و انٹرویو نگار ہیں۔ سماج، ادب، سیاست، سیاحت اور نوجوان نسل ان کے موضوعات ہیں۔ جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔