پاکستان

جائیداد کا مقدمہ، الطاف حسین کو برطانوی عدالت میں پارٹی کے سابق وفاداروں کا سامنا

یہ مقدمہ شمالی لندن کی سات جائیدادوں کے حوالے سے ایک کروڑ پاؤنڈ مالیت کا ہے جس پر سابق وفاداروں نے ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی اور قائد الطاف حسین نے برطانیہ کی ہائی کورٹ میں جائیداد کے مقدمے میں پارٹی کے سابق وفاداروں کا سامنا کیا۔

یہ مقدمہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق، الطاف کی زیر قیادت ایم کیو ایم کے سابق کنوینر ندیم نصرت اور سابق معتمد طارق میر نے دائر کیا ہے، مقدمہ شمالی لندن کی سات جائیدادوں کے حوالے سے ایک کروڑ پاؤنڈ مالیت کا ہے جس پر سابق وفاداروں نے ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔

مقدمے کی فائل کے مطابق جائیداد کے دعوے دار امین الحق نے کہا کہ یہ جائیداد ایم کیو ایم پاکستان کی ہے جس کے اراکین ان ٹرسٹوں اور/یا نتیجے میں تعمیری ٹرسٹوں سے مستفید ہوتے ہیں اور کرائے کی آمدنی یا فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سمیت اس سے حاصل ہونے والے تمام فوائد کو ایم کیو ایم پاکستان کو ’غریب اور نادار لوگوں‘ کو فائدہ پہنچانے کے لیے وقف کرنا چاہیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کا موقف ہے کہ ٹرسٹ کی اس شق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے دعویٰ کرنے والے نے کہا کہ دیانت داری سے کام کرنے میں ناکامی اور فائدہ اٹھانے والوں اور یا ٹرسٹوں کے مفاد میں وہ اپنے اور ایم کیو ایم پاکستان کے لیے یو کے ٹرسٹیز ایکٹ 1925 کے تحت ٹرسٹیز کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر الطاف حسین یہ جنگ ہار گئے تو ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا، دعوے دار ناکام ہونے کی صورت میں انہیں مدعا علیہ کے اخراجات اور قانونی فیسیں برداشت کرنی ہوں گی۔

الطاف حسین نے جائیداد کے غلط استعمال کی تردید کی اور کہا کہ جائیدادیں ایم کیو ایم کے عام کارکنوں اور ڈونرز کے دیے گئے فنڈز سے خریدی گئیں۔

الطاف حسین نے پیر کو عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی قانونی ٹیم پر مکمل اعتماد ہے، وہ بہت قابل ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ یہ مقدمہ دعوے داروں کی بد نیتی اور بری نیت کا نتیجہ ہے۔

الطاف حسین اور ندیم نصرت دونوں کو کیس میں اپنے شواہد ریکارڈ کرانے کے لیے عدالت جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

عدالت کے باہر بات کرتے ہوئے ندیم نصرت نے کہا کہ وہ چار ہفتے پہلے تک کیس کا حصہ نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ مجھے وکیلوں نے بتایا کہ میرا نام اس کیس سے منسلک ہے اور میں نے محسوس کیا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے، میں یہاں آیا اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا، مجھے اس کیس میں گھسیٹا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں ایم کیو ایم لندن یا ایم کیو ایم پاکستان کی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ہیں۔