پاکستان

(ن) لیگ کا پنجاب اسمبلی کی تحلیل ناکام بنانے کیلئے تمام حربے استعمال کرنے کا فیصلہ

اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی زیر صدارت پارٹی کے صوبائی اراکین اسمبلی کا اجلاس، اسمبلی تحلیل کرنے کا مجوزہ منصوبہ ناکام بنانے کا عہد کیا۔

صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے تمام دستیاب حربے استعمال کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے کے بعد یہ اعلان کیا گیا۔

ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے دفتر میں جمع ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے اراکین صوبائی اسمبلی قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرنے والے عمران خان کی نظروں میں ایک مرتبہ پھر اہمیت اختیار کر جانے پر پرجوش نظر آئے۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے پارٹی کے صوبائی اراکین اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی اور ’کسی بھی قیمت‘ پر عمران خان کا اسمبلی تحلیل کرنے کا مجوزہ منصوبہ ناکام بنانے کا عہد کیا۔

اجلاس میں وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے، گورنر راج کے نفاذ، گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے امکانات پر غور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب الیکشن کیس میں اپنے فیصلے کے خلاف حمزہ شہباز کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے۔

ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے ڈان کو بتایا کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے کیس میں فیصلے کے خلاف اپنی درخواست کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے جارہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 26 جولائی کو اس وقت کے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں دیے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

22 جولائی کو دوست محمد مزاری نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران پرویز الہٰی کے حق میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کو مسترد کردیا تھا۔

رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس درخواست کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرے جہاں ہم عدالت کو بتائیں گے کہ عمران خان کے کہنے پر وزیر اعلیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ اپوزیشن، پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاسکتی ہے اور گورنر سے ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ان اختیارات کے خلاف آئین میں کوئی شق موجود نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں قانون کی غلط تشریح کی جارہی ہے لہٰذا ہم مناسب وقت پر دونوں آپشنز کا استعمال کریں گے اور اجلاس میں گورنر راج کے آپشن پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ ایک شخص (عمران خان) کی خواہش پر صوبائی اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی پارلیمانی پارٹی نے جمہوری طریقے سے عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کا فیصلہ کیا ہے، اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی جبکہ گورنر راج کے آپشنز، وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور گورنر کی جانب سے وزیر اعلیٰ سے عدم اعتماد کا ووٹ لینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کچھ سینئر رہنماؤں نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر پنجاب میں اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی یا گورنر نے وزیراعلیٰ الہٰی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو موجودہ وزیر اعلیٰ سے اکثریت چھیننے کے لیے پی ٹی آئی کے کم از کم 10 اراکین اسمبلی کو اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کا کام سونپا جانا چاہیے۔

دریں اثنا، مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت نے حکمت عملی طے کرنے کے لیے پارٹی کے مشاورتی گروپ اور اس کے قانونی دماغوں کا اجلاس منگل (آج) کو طلب کر لیا۔