پاک-انگلینڈ ٹیسٹ سیریز: قومی ٹیم کو تجربہ کار کھلاڑیوں سے مقابلہ درپیش
پاکستان کو ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل میں شکست دے کر دوسری مرتبہ چیمپیئن بننے کے بعد انگلینڈ کرکٹ ٹیم اب اپنے اسی حریف کے خلاف اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان پہنچ چکی ہے اور یہاں یہ بات یاد رہے کہ وہ 17 سال کے طویل عرصہ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان آئی ہے۔
انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ سے پہلے بھی یہاں آئی تھی اور 7 ٹی20 انٹرنیشنل میچوں کی سیریز 3-4 سے جیت کر گئی تھی۔ اب اس دورے کے دوسرے مرحلے میں وہ 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیل رہی ہے۔ پہلا ٹیسٹ یکم دسمبر سے راولپنڈی میں، دوسرا 9 دسمبر سے ملتان اور تیسرا ٹیسٹ 17 دسمبر سے کراچی میں کھیلا جائے گا۔
کرکٹ کی دنیا میں انگلینڈ سے پاکستان کا تعلق بے حد پرانا ہے۔ قیامِ پاکستان کے 4 سال بعد آئی سی سی نے اس کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے انگلینڈ سے کہا کہ وہ ایم سی سی کی ٹیم کو پاکستان بھیجے۔ نتیجے کے طور پر پاکستان نے 2 غیر سرکاری ٹیسٹ میچوں کی سیریز 0-1 سے جیت کر آئی سی سی کی مکمل رکنیت حاصل کرلی۔
پاکستان نے اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز بھارت کے خلاف 53ء-1952ء میی کھیلی۔ پھر دوسری سیریز کے لیے سوا سال بعد 1954ء میں انگلینڈ کا دورہ کیا اور 4 ٹیسٹ کھیلے۔ وہاں اوول کے میدان میں انگلینڈ کی مضبوط ٹیم کو ناتجربہ کار کھلاڑیوں کی قدرے نئی ٹیم نے شکست دے کر کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
تب سے اب تک دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے ہوئے 68 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران دونوں کے درمیان 26 ٹیسٹ سیریز کھیلی جاچکی ہیں جن میں سے 8 سیریز پاکستان میں اور 16 انگلینڈ میں کھیلی گئیں جبکہ پاکستان کی 2 ہوم سیریز سیکیورٹی مسائل کے باعث متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوئیں۔
مجموعی طور پر ان 26 سیریز میں پاکستان کو 8 میں کامیابی ملی جبکہ 10 میں ناکام کا منہ دیکھنا پڑا اور 8 سیریز برابری پر منتج ہوئیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انگلینڈ کو مجموعی طور پر پاکستان کے خلاف 2 سیریز کی برتری حاصل ہے مگر پاکستان متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی 3 ٹیسٹ کی ایک سیریز میں انگلینڈ کے خلاف کلین سویپ کرچکا ہے جبکہ انگلینڈ پاکستان کو کبھی بھی کسی سیریز میں وائٹ واش نہیں کرسکا۔
اب تک پاکستان انگلینڈ کے خلاف کل 86 ٹیسٹ کھیل چکا ہے اور یہ بھی اس کا ریکارڈ ہے کہ اس نے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچ اسی ملک کے خلاف کھیلے ہیں۔ ان 86 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کو 21 میں فتح ملی اور 26 میں شکست ہوئی، جبکہ بقیہ 39 ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔
انگلینڈ میں پاکستان نے کُل 56 ٹیسٹ کھیلے جن میں سے پاکستان نے 12 اور انگلینڈ نے اس سے دگنے یعنی 24 ٹیسٹ جیتے جبکہ 20 ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔ دوسری جانب پاکستان کی سرزمین پر 24 ٹیسٹ کھیلے گئے جن میں بہت کم میچ فیصلہ کن رہے۔ پاکستان کو 4 میں اور انگلینڈ کو 2 میں فتح حاصل ہوئی جبکہ 18 ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ متحدہ عرب امارات میں 6 ٹیسٹ کھیلے گئے جن میں انگلینڈ کوئی بھی میچ نہیں جیت سکا جبکہ پاکستان نے 5 ٹیسٹ جیتے اور ایک ٹیسٹ ڈرا ہوا۔
ان تمام ٹیسٹ سیریز اور میچوں کے نتائج کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگلینڈ کو 2 سیریز اور 5 میچوں کی معمولی برتری حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان موجودہ سیریز میں انگلینڈ کی اس برتری کو کم کرنے میں کامیاب ہوسکے گا یا پھر اس برتری میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
پاکستان کو اگرچہ ہوم گراؤنڈ، ہوم کراؤڈ اور موسمی حالات کا فائدہ حاصل رہے گا مگر دوسری جانب انگلینڈ کی ٹیم اس وقت ون ڈے اور ٹی20 کی ورلڈ چیمپیئن ہے جس کے مثبت اثرات یقیناً اس کی ٹیسٹ کرکٹ پر بھی پڑ رہے ہیں اور حالیہ ٹی20 ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اس کا مورال بلند ہے۔
انگلینڈ کی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں بھی مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس کی ٹیم میں اکثریت تجربہ کار کھلاڑیوں کی ہے جبکہ پاکستانی ٹیم نوجوان اور کم تجربہ رکھنے والے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ پھر ٹیم کے سب سے اہم فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی بھی انجری کے سبب دستیاب نہیں ہیں۔
انگلینڈ کی ٹیم کو جیمز اینڈرسن جیسے نہایت تجربہ کار فاسٹ باؤلر کی خدمات حاصل ہیں۔ وہ 175 ٹیسٹ کھیلنے والے واحد فاسٹ باؤلر ہیں اور انہوں نے اپنے کیریئر میں 667 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کے علاوہ، جو روٹ موجودہ دور کے بہترین بیٹسمینوں میں شمار کیے جاتے ہیں اور وہ 124 ٹیسٹ کھیل کر 10 ہزار 504 رنز بناچکے ہیں۔ ٹیم کے کپتان بین اسٹوکس 86 ٹیسٹ میچوں میں 5 ہزار 429 رنز اسکور کرچکے ہیں۔
ان کہنہ مشق کھلاڑیوں کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم میں سوائے اظہر علی کے، کوئی بھی کھلاڑی ایسا نہیں جس نے 50 ٹیسٹ بھی کھیلے ہوں۔ اگرچہ سابق کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جو 49 ٹیسٹ کھیل چکے ہیں مگر محمد رضوان کی موجودگی میں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ سرفراز کو اپنے ٹیسٹ میچوں کی نصف سنچری مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس سے پہلے بھی انہیں ٹیم میں شامل کیا جاتا رہا ہے، مگر گزشتہ 3 سال سے انہیں کسی بھی ٹیسٹ میں نہیں کھلایا گیا۔
پاکستانی اسکواڈ کے 18 کھلاڑیوں میں 6 کھلاڑی ابھی تک کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلے ہیں جبکہ مہمان ٹیم میں صرف 2 کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے ٹیسٹ ڈیبیو نہیں کیا ہے۔ حال ہی میں ٹیم میں ایک 18 سالہ لیگ اسپنر ریحان احمد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اگر انہیں اس سیریز میں کھلایا گیا تو وہ انگلینڈ کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی بن جائیں گے۔
بہرحال پاکستان کے لیے یہ سیریز ہرگز آسان ثابت نہیں ہوگی لیکن اگر پاکستان اس سیریز میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے اور پھر فوراً بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی نیوزی لینڈ کو بھی شکست دے دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں ٹاپ کرنے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ تازہ ترین رینکنگ کے مطابق، پاکستان اس وقت 51.85 فیصد کامیابی کے تناسب کے ساتھ 5ویں اور انگلینڈ 38.6 فیصد کے ساتھ 7ویں نمبر پر ہے۔
ٹیم ریکارڈز
اننگ میں سب سے زیادہ اسکور
پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف اننگ میں سب سے زیادہ اسکور 708 رنز ہے جو اس نے 1987ء میں اوول میں کیا تھا جبکہ انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف سب سے بڑا اسکور 9 وکٹوں کے نقصان پر 598 رنز ہے۔ یہ اسکور اس نے 16ء-2015ء میں ابوظہبی کے میدان پر کیا تھا۔
اننگ میں سب سے کم اسکور
حیرت انگیز طور پر دونوں ٹیموں کا اننگ میں سب سے کم اسکور ایک ہی ہے۔ پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف برمنگھم میں 2010ء میں 72 رنز بنائے اور انگلینڈ نے بھی یہی اسکور پاکستان کے خلاف 12ء-2011ء میں ابوظہبی میں کیا۔
میچ میں سب سے زیادہ مجموعی اسکور
کسی ایک میچ میں دونوں ٹیموں کی جانب سے سب سے زیادہ مجموعی اسکور 40 وکٹوں کے نقصان پر 1553 رنز کا ہے جو لیڈز کے مقام پر 2006ء میں کیا گیا۔
میچ میں سب سے کم مجموعی اسکور
دونوں ٹیموں کی جانب سے کسی ایک میچ میں سب سے کم اسکور 28 وکٹوں کے نقصان پر 509 رنز ہے جو انہوں نے ناٹنگھم میں 1967ء میں کیا۔
سب سے بڑے مارجن سے کامیابی
پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف سب سے بڑی کامیابی لاہور میں 06ء-2005ء میں حاصل کی جب اس نے اپنے حریف کو ایک اننگ اور 100 رنز سے شکست دی جبکہ انگلینڈ نے پاکستان کو 2010ء میں لارڈز کے میدان پر ایک اننگ اور 225 کے بڑے مارجن سے ہرایا۔
یہ ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی ملک کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی شکست ہے۔
پاکستان کو انگلینڈ نے 9 مرتبہ اننگ سے ہرایا ہے جبکہ پاکستان نے انگلینڈ کو 3 بار اننگ کی شکست سے دوچار کیا ہے۔
رنز کے لحاظ سے انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی فتح 178 رنز کی ہے جو اسے 16ء-2015ء میں دبئی میں ملی جبکہ انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف رنز کے اعتبار سے سب سے بڑی کامیابی 2010ء میں ناٹنگھم کے میدان پر 354 رنز سے حاصل کی۔
وکٹوں کے لحاظ سے سب سے بڑی فتح 10 وکٹوں کی ہوتی ہے اور اس مارجن سے پاکستان نے انگلینڈ کو 4 مرتبہ اور انگلینڈ نے پاکستان کو 2 دفعہ ہرایا ہے۔
یہ 4 فتوحات پاکستان نے 1982ء میں لارڈز، 1992ء میں اوول، 12ء-2011ء میں دبئی اور 2016ء میں اوول میں حاصل کیں جبکہ انگلینڈ نے اپنی 2 کامیابیاں 1971ء میں اوول اور 1967ء میں ناٹنگھم میں سمیٹیں۔
سب سے کم مارجن سے کامیابی
پاکستان نے انگلینڈ کو 06ء-2005ء میں ملتان کے میدان پر 22 رنز سے ہرایا۔ یہ اس کی انگلینڈ کے خلاف سب سے کم رنز سے کامیابی تھی جبکہ انگلینڈ نے پاکستان کو 1971ء میں لیڈز میں 25 رنز سے ہرا کر اس کے خلاف سب سے کم رنز سے فتح سمیٹی۔
پاکستان نے انگلینڈ کو 1992ء میں لارڈز کے میدان پر صرف 2 وکٹوں سے فتح حاصل کی اور انگلینڈ نے پاکستان کو 2 مرتبہ 3 وکٹوں سے شکست دی۔ اس نے پہلی مرتبہ 1982ء میں لارڈز اور دوسری بار 2020ء میں مانچسٹر میں یہ فتح حاصل کی۔
وکٹوں کے اعتبار سے دونوں ہی ٹیموں کو ملنے والی یہ کم ترین مارجن کی فتوحات ہیں۔
بیٹنگ ریکارڈز
سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین
پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین انضمام الحق ہیں جنہوں نے 19 ٹیسٹ کھیل کر 54.62 کی اوسط سے ایک ہزار 584 رنز بنائے جبکہ انگلینڈ کی طرف سے یہ ریکارڈ ایلیسٹر کُک نے قائم کیا۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف 20 ٹیسٹ میں 49.11 کی اوسط سے ایک ہزار 719 رنز اسکور کیے۔
سب سے بڑا انفرادی اسکور
انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی طرف سے سب سے بڑی انفرادی اننگ 51 برس پہلے ظہیر عباس نے 1971ء میں برمنگھم کے میدان پر کھیلی اور انہوں نے اس اننگ میں 274 رنز بنائے۔ جبکہ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ ڈینس کومپٹن کا ہے جنہوں نے ناٹنگھم کے میدان پر 1954ء میں 278 رنز کی اننگ کھیلی اور گزشتہ 68 سال سے ریکارڈ اب بھی برقرار ہے۔
سب سے زیادہ انفرادی سنچریاں
محمد یوسف نے پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف 14 میچوں میں 6 سنچریاں اسکور کیں جبکہ انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف ایلیسٹر کُک نے 20 میچوں میں 5 سنچریاں بنائیں۔ 50 یا زائد رنز کی سب سے زیادہ اننگز بھی انہوں نے ہی کھیلیں جن کی تعداد 13 ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے یہ ریکارڈ انضمام الحق کا ہے جنہوں نے انگلینڈ کے خلاف 15 نصف سنچریاں اسکور کیں۔
سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین
پاکستان کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف یہ ریکارڈ محمد یوسف نے قائم کیا جب انہوں نے 2006ء میں انگلینڈ میں 4 ٹیسٹ کھیل کر 90.14 کی اوسط سے 631 رنز بنائے۔ انگلینڈ کی جانب سے جو روٹ نے 2006ء میں ہوم سیریز کے دوران 4 ٹیسٹ میچوں میں 73.14 کی اوسط سے اور 512 رنز اسکور کیے تھے۔
باؤلنگ ریکارڈز
سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر
پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر مرحوم لیگ اسپنر عبدالقادر ہیں۔ انہوں نے 16 ٹیسٹ میچوں میں 24.98 کی اوسط سے 82 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ جیمز اینڈرسن نے 18 میچوں میں 19.31 کی اوسط سے 74 وکٹیں لے کر قائم کیا ہے۔
اننگ میں بہترین باؤلنگ
انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی طرف سے یہ ریکارڈ بھی عبدالقادر ہی نے قائم کیا تھا۔ انہوں نے نومبر 1987ء میں لاہور میں 56 رنز کے عوض 9 وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستان کے خلاف انگلینڈ کی جانب سے ای این بوتھم نے 1978ء میں لارڈز میں 34 رنز کے بدلے 8 وکٹیں لے کر یہ ریکارڈ قائم کیا جو 44 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک برقرار ہے۔
میچ میں بہترین باؤلنگ
پاکستان کے لیے انگلینڈ کے خلاف یہ ریکارڈ بھی عبدالقادر ہی کے پاس ہے۔ انہوں نے لاہور میں نومبر 1987ء ہی کے میچ میں 101 رنز دے کر 13 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ اسپنر ڈیرک انڈروڈ نے 1974ء میں لارڈز کے میدان پر صرف 71 رنز کے عوض 13 وکٹیں لے کر قائم کیا تھا جسے اب 48 برس گزر چکے ہیں۔
اننگ میں سب سے زیادہ مرتبہ 5 یا زائد اور میچ میں 10 یا زائد وکٹیں
پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف یہ دونوں ریکارڈز عبدالقادر ہی نے قائم کیے تھے۔ انہوں نے 8 مرتبہ اننگ میں 5 یا زائد اور 4 دفعہ میچ میں 10 یا زائد وکٹیں حاصل کیں۔
انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ مرتبہ اننگ میں 5 یا زائد وکٹیں لینے والے باؤلر ڈیرک انڈروڈ ہیں، جنہوں نے 4 بار یہ کارنامہ انجام دیا جبکہ میچ میں 10 یا زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ 4 باؤلرز نے ایک، ایک مرتبہ انجام دیا ہے۔ یہ باؤلرز انڈروڈ، کرس ووکس، نک کک اور جیمز اینڈرسن ہیں۔
سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلرز
انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی جانب سے یہ ریکارڈ بھی عبدالقادر ہی نے قائم کیا تھا۔ انہوں نے 88ء-1987ء کی ہوم سیریز کے تینوں ٹیسٹ کھیل کر 14.56 کی اوسط سے 30 وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کے خلاف انگلینڈ کے لیے یہ ریکارڈ کرس ووکس نے قائم کیا۔ انہوں نے 2016ء کی ہوم سیریز میں 4 ٹیسٹ کھیل کر 19.84 کی اوسط سے 26 وکٹیں لیں۔
وکٹ کیپنگ اور فیلڈنگ ریکارڈز
وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ شکار
ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف وکٹوں کے پیچھے سے سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر وسیم باری ہیں۔ انہوں نے 24 میچوں کی 42 اننگز میں 54 شکار کیے۔ ان میں 50 کیچ اور 4 اسٹمپ شامل ہیں۔
انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ ایلن ناٹ نے قائم کیا۔ انہوں نے 14 ٹیسٹ میچوں کی 23 اننگز میں 41 شکار کیے۔ ان میں 39 کیچ اور 2 اسٹمپ شامل ہیں۔
پاکستان کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے فیلڈر یونس خان ہیں جنہوں نے 27 میچ کھیل کر 20 کیچ پکڑے جبکہ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے فیلڈر جو روٹ ہیں جنہوں نے 12 میچوں میں 22 کیچ پکڑے ہیں۔
متفرق ریکارڈز
سب سے زیادہ میچ کھیلنے والے کھلاڑی
پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کھلاڑی مشتاق محمد ہیں جنہوں نے 23 ٹیسٹ کھیلے جبکہ انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے والے کھلاڑی ایلیسٹر کُک ہیں جو 20 میچ کھیل چکے ہیں۔
بحیثیت کپتان سب سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے والے کھلاڑی
مصباح الحق انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ وہ 10 ٹیسٹ میں کپتان رہے جبکہ پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں انگلینڈ کی قیادت اینڈریو اسٹراس نے کی اور وہ 11 ٹیسٹ میں کپتان رہے۔
موجودہ سیریز میں پاکستانی ٹیم کی قیادت بابر اعظم اور انگلینڈ کی کپتانی بین اسٹوکس کررہے ہیں۔ بابر 13 ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کا تجربہ رکھتے ہیں جبکہ اسٹوکس کپتان کی حیثیت سے 8 ٹیسٹ کھیل چکے ہیں۔ تاہم دونوں پہلی مرتبہ ایک دوسرے کی ٹیم کے خلاف قیادت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور یہ دیکھنا بہت ہی دلچسپ ہوگا کہ کون اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرواتا ہے۔
مشتاق احمد سبحانی سینیئر صحافی اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ان کا خاص موضوع ہے جس پر لکھتے اور کام کرتے ہوئے انہیں 40 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ ان کی 4 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔