اسٹیٹ بینک کا شرح سود بڑھا کر 16 فیصد کرنے کا اعلان
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا جس کے بعد شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گئی۔
یہ اعلان مرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہے، شرح سود بڑھانے کے فیصلے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی پائیدار نہ ہوجائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے۔
ایس بی پی کا کہنا تھا کہ معاشی سست روی کے دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور رسدی دھچکوں کے سبب تحریک مل رہی ہے، جس سے لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ یہ صورتحال وسط مدتی نمو کو متاثر کرسکتی ہے، جس کے سبب لاگتی مہنگائی نظر انداز نہیں کی جاسکتی اور زری پالیسی کے ذریعے ردعمل ضروری ہو جاتا ہے۔
ایس بی کے مطابق حالیہ سیلاب سے فصلوں کو ہونے والے نقصانات کے باعث غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے قوزی مہنگائی (کور انفلیشن) مزید بلند ہوئی۔
اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ درآمدات میں کمی کے نتیجے میں ستمبر اور اکتوبر میں جاری کھاتے کے خسارے میں خاطر خواہ اعتدال آیا جبکہ اے ڈی پی کی جانب سے فنڈنگ ہوئی لیکن اس کے باوجود بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار رہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے اعلامیے میں تصدیق کی گئی کہ مالی سال 2023 میں 2 فیصد شرح نمو اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق بُلند غذائی قیمتوں اور کور انفلیشن کی وجہ سے اوسط مہنگائی مالی سال 2023 میں 21 سے 23 فیصد تک رہنے کی امید ہے۔
اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ ستمبر کے مہینے میں بڑی صنعتوں (ایل ایس ایم) کی پیداوار گزشتہ برس کی نسبت کمزور رہی اور صرف برآمدی نوعیت کے شعبوں میں مثبت نمو ہوئی۔
مزید بتایا گیا کہ سیلاب کی وجہ سے چاول اور کپاس کی فصلوں میں بھاری پیداواری نقصان ہوا جس کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ اور تعمیرات میں سست نمو اس سال کی نمو پر اثر انداز ہوں گی۔
غیر متوقع فیصلہ
مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے فیصلے کو متعدد تجزیہ کاروں اور ماہرین معیشت نے غیر متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کی توقع تھی کہ شرح سود کو 15 فیصد پر برقرار رکھا جائے گا۔
ڈان ڈاٹ کام نے 7 ماہرین سے بات کی جن کو توقع تھی کہ بنیادی شرح سود میں اضافہ نہیں کیا جائے گا جبکہ متعدد ماہرین کا کہنا تھا کہ معاشی سرگرمیوں میں سست روی شروع ہوگئی ہے اور مہنگائی جو حالیہ چند مہیںوں میں دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہے اس کے رجحان میں کمی واقع ہوگی۔
خیال رہے کہ یکم نومبر کی ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں صارف قیمت انڈیکس سے پیمائش کردہ مہنگائی سالانہ بنیاد پر 26.56 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جو اگست میں چار دہائیوں کی بلند ترین سطح 27.3 پر تھی۔
یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک نے جولائی میں شرح سود میں مزید 125 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 13.75 سے بڑھا کر 15 فیصد کردی تھی، جس کے بعد مرکزی بینک نے شرح سود کو برقرار رکھا تھا۔
اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز کے فہد رؤف نے بتایا کہ مہنگائی میں کمی کی توقع ہے کیونکہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر بھی کافی حد تک قابو پالیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت میں طلب کم ہورہی ہے جو گاڑیوں، سیمنٹ اور پیٹرولیم مصنوعات جیسے اشاریوں سے واضح ہے لہٰذا اس موقع پر شرح سود میں مزید اضافے کی ضرورت نہیں تھی۔
کے ٹریڈ سیکیورٹیز کے چیئرمین علی فرید خواجہ نے کہا کہ وزیر خزانہ واضح طور پر کم شرح سود کے حامی ہیں، اسٹیٹ بینک اب خودمختار ہے اور وہ وزارت خزانہ کی براہ راست ہدایات ماننے کا پابند نہیں ہے، میرا خیال ہے کہ تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، امریکا میں بھی مہنگائی کم ہوئی ہے، حکومت کے پاس شرح سود کو برقرار رکھنے کی گنجائش ہوسکتی تھی۔
جے ایس گلوبل کی امرین سورانی نے بتایا کہ اب تک ہونے والے شرح سود میں اضافے کے اثرات معیشت پر ظاہر ہو رہے ہیں، معاشی سرگرمیاں سست ہو رہی ہیں، تاہم اب بھی حقیقی شرح سود منفی ہے لہٰذا مرکزی بینک دیکھو اور انتظار کرو والی پالیسی اختیار کر سکتے تھے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو کے اجلاس کے منٹس سے شرح سود کم کرنے کا عندیہ ملتا ہے، اس وجہ سے بھی مرکزی بینک پالیسی ریٹ کو برقرار رکھ سکتا تھا۔