2 ہزار یا اس سے زائد ڈالر کی خریداری کیلئے اکاؤنٹ کھولنا لازمی قرار
ڈالر کے انخلا اور اخراج کو محدود کرنے کے لیے ایک بڑا اقدام کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2 ہزار یا اس سے زیادہ ڈالر کی خریداری سے قبل اکاؤنٹ کھولنا لازمی قرار دے دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے یہ بات اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتائی۔
حکومت اور اسٹیٹ بینک نے ڈالر کے اخراج پر قابو پانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، رواں مالی سال کے وران بیرونی اکاؤنٹس کی ضروریات پوری کرنے پر اعتماد کا اظہار کرنے والے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو ڈالر کی قیمت 200 روپے سے نیچے لانے اور ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے پر پابندیوں نے پہلے ہی صنعتی سرگرمیاں متاثر کردی ہیں جب کہ بہت سے صنعتی شعبے خام مال اور پرزوں کی کمی کی شکایت کر رہے ہیں، پھنسی ہوئی ایل سی کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن درآمد کنندگان کا دعویٰ ہے کہ یہ تقریباً ایک ارب ڈالر مالیت کی ہوسکتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایل سی کھولنے کی اجازت کے حصول کے لیے امپورٹرز کی لمبی قطاریں لگی نظر آتی ہیں، ایل کھولنا اتنا آسان نہیں ہے جب کہ بینکوں کو ڈالر کی کم آمد کا سامنا ہے جس کی وجہ سے درآمد کنندگان کی مانگ کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے، درآمدات بالخصوص خام مال کی در آمد میں کٹوتی نے برآمدی صنعت کے لیے سنگین مسائل پیدا کر دیے ہیں۔
دوسری جانب، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے حال ہی میں وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ اور بلوچستان میں گیس سپلائی بند ہونے سے برآمدی صنعت کو تباہ ہونے سے بچائیں، برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ نومبر برآمدی صنعت کے لیے بدترین مہینہ رہا اور صنعت کی کم آمدنی کے باعث ملک کو ایک اور جھٹکا لگ سکتا ہے۔
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ مرکزی بینک ایک ایک ڈالر کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے اخراج کو مزید مشکل بنا رہا ہے، وہ بینک جو آزادانہ طور پر عالمی کریڈٹ کارڈ جاری کر رہے تھے ان پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں جب کہ کریڈٹ کارڈز سے ڈالر کے اخراج میں اضافہ ہوا تھا۔
بینکرز نے کہا کہ 2 ہزار ڈالر خریدنے سے قبل اکاؤنٹ کھولنے کی شرط انتہائی مشکل ہوگی، بینک ان دنوں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس نہیں کھولتے، ڈالر لے کر بیرون ملک جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا، ایک ہی طریقہ ہے کہ حوالہ ہنڈی مارکیٹ سے انتہائی مہنگے داموں پر ڈالر حاصل کریں۔
حوالہ ہنڈی مارکیٹ بینکس کے مقابلے میں 20 سے 30 روپے فی ڈالر زیادہ وصول کرتی ہیں، کچھ ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حوالہ مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 260 روپے سے بھی زیادہ ہے۔
نئی شرط کے تحت ڈالر کی خریداری، چیک اور بینک اکاؤنٹ کو دستاویزی شکل دینا لازمی قرار دیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک نے ڈالر کی خریداری کے لیے ادائیگیاں بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔
ڈالر خریدنے کے لیے مجموعی رقم پہلے ہی 50 فیصد کم کر کے 10ہزار سے5ہزار ڈالر کردی گئی ہے تاہم ڈالر خریدنے سے قبل بینک اکاؤنٹس کھولنے کی نئی شرط نے سرکاری چینل سے ڈالر کے اخراج پر تقریباً ایک سیل لگادی ہے۔
ایکسچینج کمپنیاں روزانہ کی بنیاد پر ڈالر کا ریٹ جاری کرتی ہیں لیکن وہ خریداروں کو ڈالر فراہم نہیں کرتیں بلکہ وہ شکایت کرتی ہیں کہ بیچنے والے مارکیٹ سے غائب ہو گئے ہیں۔