نقطہ نظر

’نئے آرمی چیف کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہوگی‘

یہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل کے سیاسی کردار کا معاملہ نہیں بلکہ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے جو داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

آرمی چیف کی تبدیلی کا معاملہ کبھی بھی اتنا متنازع نہیں تھا۔ جس معاملے کو معمول کے مطابق حل کرنا چاہیے تھا، حالیہ دنوں میں وہی معاملہ سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔

ممکنہ طور پر اس ہفتے کے آخر تک نئے آرمی چیف کا اعلان ہوجائے گا لیکن یہ پورا عمل اس قدر سیاسی بن چکا ہے کہ آرمی چیف کی تبدیلی سے بھی یہ تنازع حل نہیں ہوگا۔ یوں نئے آرمی چیف عدم استحکام اور سیاسی تقسیم کی صورتحال میں اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔

ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نئے آرمی چیف کے لیے سب سے اہم چیلنج اس صورتحال میں اپنے لیے راستہ بنانا ہوگا۔ یہاں معاملہ صرف موجودہ سیاسی کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار تک محدود نہیں بلکہ اب ادارے پر عوامی اعتماد کو بحال کرنے کا بھی ہے۔

عسکری قیادت کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے اس پر جس قدر شدید عوامی تنقید ہورہی ہے اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ یہی وہ عنصر ہے جس نے نئے آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنا دیا ہے۔

ملکی سیاست میں دخل اندازی نے فوج کی پیشہ وارانہ مہارت اور قومی سلامتی کی اہم ذمہ داری سے متعلق سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اس بات میں کوئی حیرت نہیں کہ تاخیر سے کیے جانے والے ’غیر سیاسی‘ ہونے کے دعوے پر کم لوگ ہی یقین کررہے ہیں۔

سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ شروع سے ہی بلواسطہ یا بلاواسطہ ملکی سیاست پر حاوی رہی ہے۔ آمریت کے طویل ادوار اب مختصر اور غیر مؤثر سویلین حکومتوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ فوج کے سیاسی کردار نے سویلین اداروں اور ملک میں جمہوری سیاسی کلچر کے فروغ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ 75 سال گزرنے کے باوجود ملک میں طاقت کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں خاندانی مفادات کے تحت سیاست کرتی ہیں اور اپنا سیاسی کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ انہی لوگوں کو پیادے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ماورائے آئین طریقوں یا سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے منتخب جمہوری حکومتوں کو برطرف کردیا جاتا ہے۔ فوج کی گود میں پرورش پانے والے سیاسی رہنما جب ایک بار قابو سے باہر ہوجائیں تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی مشکل کام نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ صرف چند جمہوری حکومتوں کا ہی اپنی مدت پوری کرنا یہاں حیران کُن بات نہیں ہے۔ یہاں متبادل باآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ سیاسی میوزیکل چیئرز کا یہ کھیل سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے۔ عمران خان کا اقتدار سنبھالنا بھی اسی کھیل کا نتیجہ تھا اور عمران خان اس کھیل میں ایک نئے امیدوار تھے۔

یہ بات اب راز نہیں رہی کہ انہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھانا ادارے کا فیصلہ تھا اور ایک ایسا اتحاد بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار تھا جس نے 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو وفاق اور پنجاب میں حکومت قائم کرنے کا موقع فراہم کیا۔

یہ ہائبرڈ نظام کا پہلا تجربہ تھا جس کی ڈوریں فوج کے ہاتھ میں تھیں۔ یہ نیا اتحاد صرف اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی قائم رہ سکتا تھا۔ ایک اعلیٰ سیکیورٹی افسر کے مطابق، عمران خان ہر چیز کے لیے سیکیورٹی اداروں پر انحصار کرنے لگے تھے۔ ملک کے ہر شعبے میں ہی اسٹیبلشمنٹ کا کردار واضح نظر آتا تھا۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ ہائبرڈ حکومت کو دوام بخشنے اور سیاسی مخالفت کا مقابلہ کرنے کے لیے میڈیا میں بھی کچھ نرم گوشے پیدا کیے گئے تھے۔

لیکن اقتدار کی شراکت میں کچھ پیچیدگیاں ہوتی ہی ہیں۔ شاید دونوں فریقین کا ایک دوسرے کا ساتھ دینا دونوں کے ہی مفاد میں تھا لیکن اس ہائبرڈ نظام میں اس وقت کچھ تناؤ دیکھنے میں آیا جب داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر اختلافات بڑھنے لگے۔

یہ اختلافات اس وقت انتہا کو پہنچے جب عمران خان نے آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی کے معاملے پر سرخ لکیر پار کی۔ بس تب ان کا وقت ختم ہوگیا تھا۔ وہ اب ایک بوجھ بن چکے تھے۔ یوں میوزیکل چیئرز کے نئے کھیل کا آغاز ہوا اور اس بار پرانے حریفوں کی بطور اتحادی واپسی ہوئی۔

تاہم یہ کھیل ویسے نہیں کھیلا گیا جیسی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ نیوٹرل رہنے کا دعویٰ مشکوک ہی رہا۔ عمران خان نے حالات کو اپنے سابق سرپرستوں کے خلاف اتنے سخت انداز میں پلٹا کہ اس سے قبل ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ان کی عوامی مقبولیت نے اس کھیل کو تبدیل کردیا۔ ان کی مہم نے اسٹیبلشمنٹ کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ فوج کی کمان میں ہونے والی تبدیلی نے اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات کو محدود کردیا ہے جو عمران خان کے مفاد میں ہے۔

عمران خان نے خاص حکمتِ عملی کے تحت بعض سینیئر آرمی افسران کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ دیگر کو اس سے محفوظ رکھا۔ انہوں نے جان بوجھ کر نئی عسکری قیادت کو دباؤ میں لانے کے لیے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو متنازع بنایا ہے۔ ان کا اصل مقصد اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر اقتدار سنبھال سکیں۔ لیکن ان کے بڑھتے ہوئے غرور کی وجہ سے ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہوسکتے ہیں۔

اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا الزام سینیئر انٹیلیجنس افسر پر عائد کرکے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے اختلافات کو نیا رخ دے دیا ہے۔ فوج کی کمان میں تبدیلی کے بعد شاید یہ معاملہ لپٹ جائے۔ مگر فوج کے نیوٹرل ہونے کے دعوے کے باوجود عمران خان کو روکنا فوج کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ حکومتی قیادت پی ٹی آئی کو روکنے اور سیاسی استحکام بحال کرنے کے حوالے سے کافی کمزور نظر آتی ہے۔

نئی عسکری قیادت کے لیے ادارے کو درپیش متعدد مسائل سے نمٹنا انتہائی مشکل ہوگا۔ یہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل کے سیاسی کردار کا معاملہ نہیں بلکہ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے جو داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اعلیٰ عسکری عہدیداروں کے اختیارات اور مراعات کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات سے ادارے کی عوامی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ اعلیٰ سطح پر مالی بدنظمی سے بُرا اور کیا ہوسکتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی ریئل اسٹیٹ کاروبار میں مبیّنہ شمولیت سے یہ تاثر گیا ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی قومی سلامتی کی ذمہ داریوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔ یہ بڑھتے ہوئے کاروباری اور تجارتی مفادات نہ صرف پروفیشنلزم کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی رعایتیں بھی ملک میں سول ملٹری تعلقات پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔

ملکی سیاست کے انتہائی اہم موڑ پر قیادت سنبھالنے والے نئے آرمی چیف کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہوگی۔ دہائیوں سے چلتی آرہی روایات سے دُور رہنا ان کے لیے بہت مشکل ہوگا۔


یہ مضمون 23 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔