نقطہ نظر

’گورے اور کالے رنگ کی تفریق نہ جانے ہم نے کہاں سے سیکھی‘

انگریزوں کی کالونی بن کر ہم نے کچھ اور سیکھا ہو یا نہیں لیکن سفید رنگ سے مرعوب اس قدر ہوئے کہ یہ حسن کی نشانی ٹھہرا۔

وہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی، گالوں پر پھسلتے آنسوؤں میں ہمارا دل بھیگتا جاتا تھا۔

’امی، سب سے اچھا میں نے پرفارم کیا۔ سب کا کہنا یہی تھا پھر بھی مجھے نہیں چنا گیا ایلس اِن ونڈر لینڈ کے لیے۔‘

’بیٹا کوئی رول تو ملا ہوگا نا؟‘

’ہاں امی، سائیڈ رول، ہر بار وہی ملتا ہے، ایکسٹرا کا، ایک گروپ میں ڈانس کرنے والا؟‘

’کوئی بات نہیں بیٹا، اگلی بار سہی۔‘

’نہیں ماں، میں نے سب سے اچھی ایکٹنگ کی تھی، مجھے ایلس بننا تھا۔‘

’بیٹا دل بڑا کرو۔ ہوسکتا ہے دوسری بچی نے زیادہ اچھا کیا ہو۔‘

’نہیں ماں، سب کہہ رہے تھے کہ اُس کی ایکٹنگ اچھی نہیں تھی مگر شاید وہ ایلس بن کر اچھی لگے گی اسٹیج پر۔۔۔‘

’کیوں؟‘

’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔‘

’ہاں کہو بیٹا۔‘

’امی، وہ گوری ہے بہت، بال بھی سنہری سنہری اور میرا رنگ ویسا نہیں۔‘

دل ایک ثانیے کو دھڑکنا بھول گیا۔

’بیٹا گورے رنگ سے کچھ نہیں ہوتا۔ تم دیکھو تمہاری آنکھیں کس قدر خوبصورت ہیں، تمہاری ناک کتنی پیاری ہے اور بال بھی اتنے گھنے ہیں۔‘

’نہیں ماں رنگ تو اتنا ڈارک ہے میرا۔ یہ دیکھیں آپ کا بازو اور میرا بازو۔ سفید فراک پہن کر اچھی ہی نہیں لگتی میں‘۔

وہ بازو پھیلائے کھڑی تھی اور ظالم وقت ہمیں کچھ یاد کروا رہا تھا۔

’میں ہوں گورے جدِ امجد کی بیٹی اور آپ کالے کی بیٹی۔‘

جھوم جھوم کر وہ بچی یہ زہریلے الفاظ کہتے نہ تھکتی اور کالے جدِ امجد کی بیٹی چپ چاپ اسے دیکھتی رہتی۔

اعتراف کرنے دیجیے کہ بچپن میں آئینے اور گوری رنگت نے ہمیں خود پرست بنا دیا تھا۔ گورے اور کالے رنگ کی تفریق نہ جانے ہم نے کہاں سے سیکھی؟

ماں باپ سے؟ شاید۔

رشتے دار؟ زیادہ ممکن۔

ہمسائے، احباب؟ ممکن۔

نوآبادیاتی کلچر کا اثر؟ سو فیصد۔

ہمارے ابّا بہت صاف رنگ کے مالک تھے یوں لگتا جیسے کسی انگریز کی اولاد ہوں، مگر اماں سانولی تھیں۔ سو نتیجہ یہ کہ کچھ بچے بہت گورے، کچھ سانولے اور کچھ درمیانے۔

ہم پڑے ابّا پر اور آپا اماں پر۔ ٹھہرے نادان، کیسے سمجھتے کہ یہ جینز کا کھیل ہے، اسے ذاتی مان سمجھ بیٹھے۔ اٹھکیلیاں سوجھیں اور اٹھلا اٹھلا کر گورے جدِ امجد کی اولاد بن بیٹھے۔ آپا سدا کی صابر، کبھی نہ کہا کہ چھٹکی میری جگہ تم بھی ہوسکتی تھیں۔

آپا بولیں نہیں اور ہماری زبان کسی نے پکڑی نہیں الٹا ہلا شیری دینے والے بے شمار۔ ’چھوٹی تو میدے گلاب سے بنی ہے، اوپر سے سیاہ کالے بال اور بھوری سی آنکھیں۔ بڑی؟ اچھی ہے پر رنگ کچھ کم ہے۔ تبت اسنو استعمال کروا کر دیکھو، ہاں وہی اشتہار والی۔ کالے رنگ نوں گورا کردے تے گورے نوں چن ورگا‘۔

نہ جانے اماں کیوں نہیں کہہ سکیں کہ نہیں چاہیے مجھے چن ورگی۔۔۔ نہیں لگانی مجھے اسے تبت اسنو۔ مگر ہم ایسے تھڑدلے کہ دن رات یہ راگ گانے لگے گورا چن ورگا۔ ہم جانتے ہی نہیں تھے کہ چن تو مانگے کی روشنی پر چاندنی بکھیرتا ہے، پاس اس کے کچھ بھی نہیں۔

یاد نہیں کون؟ شاید بھائی، جس کا دل گوری رنگت کے راگ سے خوب جلا ہوگا اور انہوں نے ہمیں زیر کرنے کی ٹھانی کہ ’گوری گوری، گونہہ کی بوری، گوری گوری، گونہہ کی بوری‘۔ لیکن ہماری گوری رنگت جس جگہ تک ہمیں پہنچا چکی تھی وہاں ایسی جلی کٹی کا اثر کیسے پہنچتا۔ آپا اپنے خول میں سمٹتی گئیں اور ہم ہر طرف پھیلتے گئے۔

سچ پوچھیں تو ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ آپا کے لیے ہم کتنی بڑی آزمائش بن کر اترے تھے۔ گوری رنگت نے ساری عمر ہمیں ایک پیڈسٹل پر چڑھا کر رکھا۔ رنگت کے ساتھ باتیں بگھارنا بھی جانتے تھے سو جانِ محفل بننے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔

شادی بیاہ میں گائے جانے والے گیت بھی ہمارا ساتھ دیتے۔۔۔ ’گورا رنگ نہ کسی نوں رب دیوے، کہ سارا پنڈ ویر پیہ گیا، بلّے بلّے‘۔

پنڈ سے یاد آیا، گاؤں جاتے ہوئے اماں تبت اسنو کی کچھ بوتلیں ساتھ رکھ لیتیں۔ بہت سی ماؤں کو اپنی بیٹیاں چن ورگی بنوانی تھیں۔ وقت کے پھیر میں تبت اسنو کی جگہ فیئر اینڈ لؤلی آگئی اور بے شمار اشتہار کہ گوری دلہن بننے کے لیے فیئر اینڈ لؤلی لازمی ہے۔ زمانے نے کچھ کریموں کا مرکب بھی بکتے ہوئے دیکھا، آرچی کریم، اسٹیرائڈز۔۔۔ گوری رنگت حاصل کرنے کا مجرب نسخہ۔ نہ جانے کتنی لڑکیوں کی محرومی بڑھی اور نہ جانے کتنی لڑکیوں نے اپنی خوبصورت اور بے داغ رنگت کو داغدار بنا ڈالا۔

پھر چٹ منگنی پٹ بیاہ کروانے کا بھی نسخہ تو یہی تھا نا کہ گوری لڑکی، جو اندھیرے میں بھی نظر آئے۔

ہماری زندگی کا سفر آگے اور آگے بڑھتا گیا۔ شادی ہوئی، شوہر سانولے، بچی پیدا ہوئی تو روئی کا گالا، جو دیکھے چومنے چاٹنے کو تیار۔ گڑیا جیسی بچی کی پکار ہر طرف۔ ہماری گردن کو مزید کلف لگتا جاتا کہ بچی کی گوری رنگت کا سہرا بھی ہمارے سر ہی باندھا گیا کہ ’ماں جو اتنی گوری ہے‘۔

لیکن وہ جو اوپر بیٹھا ہے اسے ترازو کے پلڑے برابر تو کرنے تھے۔ دوسری بچی انتہائی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی۔ ہمارے جگر کا ٹکڑا، آنکھوں کا نور، دل کا سرور۔ ہم بہت خوش۔

’ایں یہ کیا‘، لوگ دیکھ کر چپ ہوجاتے۔ ’بڑی جیسی نہیں، بڑی تو برف کا گالہ تھی یا روئی کا گالہ۔۔۔ اس کی رنگت دب گئی‘۔

’ایں دبی ہوئی رنگت۔۔۔ کہاں؟ کدھر؟ ایسی من موہنی شکل ہے اس کی کہ دل میں گھستی جائے‘۔

کچھ نسخے بھی دیے جانے لگے، پہلے 40 دن میں ہی منہ پر میدے کی روٹی بناکر ملو، رنگ نکھر جائے گا۔ فلاں ممانی نے بیٹیوں کے رنگ ایسے ہی چمکائے تھے۔

کیوں ملوں منہ پر میدہ؟ ضرورت کیا ہے؟ رنگت سانولی ہے، تو کیا؟ جلد میں میلانین زیادہ ہے تو کمتر کیسے ہوگئی یہ؟

ہم اماں اور آپا تو تھے نہیں کہ بچے کی رنگت پر ہونے والے تبصرے کو جام شیریں سمجھ کر پی جاتے۔ ’دیکھیں جی، میری عزیز از جان اولاد ہے یہ، میرے جسم کا ایک ٹکڑا، جسمانی و ذہنی طور پر تندرست۔ کیا ہوا اگر رنگت شلجم کی طرح نہیں۔۔۔ رنگ سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘

کیا واقعی؟ دل نے چٹکی بھری۔ سویا ہوا ماضی جاگ گیا۔ ’میں گورے جدِ امجد کی بیٹی، آپ کالے کی‘۔ اپنی سنگدلی یاد آئی، گوکہ بچپن تھا لیکن یہ سیکھا کہاں سے ہم نے؟

کلچر، دوست احباب، رشتے دار جو جلد کی سفیدی کو پوجتے نہیں تھکتے تھے۔ کالا پرے کرو، گوری رنگت کو سات خون معاف؟

ہمیں سبق سکھانا مقصود تھا سو سکھا دیا گیا۔ لیکن ہر گام پر کچھ نہ کچھ تیر لگنا باقی تھے۔ بیٹی کی کسک دل کو زخم دیتی تھی۔ یاد ہے خوب جب کسی نے اسے کالو پکارا اور ہمارا دل چاہا کہ زبان کھینچ لیں۔ اور وہ لمحے جب وہ بستر میں ساتھ لیٹی ہوتی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم دیکھ نہیں رہے، ہولے سے اپنا بازو ہمارے بازو کے ساتھ رکھ دیتی۔ ہم جان کر بھی انجان بن جاتے۔

پھر وہ سوال کہ میں آپ تینوں سے مختلف کیوں؟ دل بیٹھ جاتا مگر جواب ہم بھی ڈھونڈھ لیتے، ’کیونکہ تم خاص ہو، خاص الخاص۔۔۔ ہم عام لوگ، ایک جیسے‘۔ سانولی سلونی میری شہزادی، خاص الخاص۔

’نہیں امی، آپ سب پیارے ہیں، میں نہیں‘

’جتنی پیاری تم ہو اتنا کوئی نہیں۔‘

’کوئی نہیں جی اسکول میں تو کوئی مجھے پیارا نہیں سمجھتا، گوری رنگت والی بچیوں کو ڈرامے میں بڑا رول ملتا ہے۔‘

’سنڈریلا؟ گوری ہونی چاہیے تب ہی تو شہزادے کو اچھی لگے گی۔ ایلس اِن ونڈرلینڈ۔ گوری رنگت اور سنہرے بالوں والی تاکہ اسٹیج پر خوب چمک دمک ہو، سفید فراک اس پر جچے اور اسنو وائٹ۔ وہ تو ہے ہی اسنو وائٹ، اس کردار کے لیے تو بچی کو الٹرا وائٹ ہونا چاہیے۔ ہے نا امی؟‘

کیا بچوں کی کسی کہانی کا کردار ایسا بھی ہے جو وائٹ نہ ہو؟

انگریزوں کی کالونی بن کر ہم نے کچھ اور سیکھا ہو یا نہیں لیکن سفید رنگ سے مرعوب اس قدر ہوئے کہ یہ حسن کی نشانی ٹھہرا اور گورا ہونا عام لوگوں کی نسبت خاص بنا۔

کیوں؟ کیا ہے ایسا بھلا شلجم جیسی پھیکی رنگت میں۔ جلد کی رنگت میں اگر رنگ بنانے والا مادہ میلانین کم ہو یا زیادہ، اسے انسانی اوصاف تولنے کے لیے کیوں استعمال کیا جانے لگا؟

دُور دیس سے آنے والا اجنبی حاکم کالی رنگت والے مقامی سے بہتر کیسے؟ اور اگر وہ ایسے ہی بہتر تھے تو کالوں کے دیس میں آئے کیوں؟

لمبی بحث ہے، چھوڑیے، فی الوقت تو یہ کہنا ہے کہ گوری رنگت کے سراب سے نکل آئیے اور اپنے بچے کو یقین دلائیے کہ رنگ میں کچھ نہیں رکھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کالی رنگت والا رشی سوناک لاکھوں گوروں کا حکمران نہ ہوتا۔کالا شاہ کالا، ساڈھا کالا اے سردار تے گوریاں نوں دفع کرو!

ہماری بیٹی بھی دنیا فتح کرنے نکل چکی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔