ایف بی آر برآمد کنندگان کو 200 ارب روپے واپس کرنے میں ناکام
رواں مالی سال میں برآمدی صنعتوں کے قابل ادائیگی ریفنڈز اور ٹیکس کریڈٹ میں 200 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہوگیا ہے، برآمد کنندگان نے ٹیکسٹائل یونٹس کو بند کرنے سے خبردار کیا ہے جب کہ لیکویڈیٹی کے شدید بحران نے ان کے لیے کام جاری رکھنا ناممکن بنا دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قابل ادا فنڈز میں سیلز ٹیکس ریفنڈز سے لے کر مقامی ٹیکسوں اور لیویز کی ڈیوٹی ڈرا بیک شامل ہیں جن کا حکومت نے ٹیکسٹائل اور کپڑے کے برآمد کنندگان کے لیے کاروبار کی لاگت کو کم کرنے کے لیے اعلان کیا تھا۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 45 ارب روپے کے ریفنڈ کی ادائیگی کے آرڈرز 16 اکتوبر سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس زیر التوا ہیں جب کہ منسوخ سیلز ٹیکس ریفنڈ گزشتہ 6 ماہ میں 55 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
برآمد کنندگان کو قابل ادا انکم ٹیکس کریڈٹ تقریباً 100 ارب روپے ہے، ٹیکس کریڈٹ صنعت کاروں کو پروڈکشن لائن کی توسیع یا اس میں جدت لانے پر دیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ لوکل ٹیکسز اور لیویز کی مد میں ڈیوٹی ڈرا بیک کی قابل ادا رقم 45 ارب روپے بنتی ہے، ان میں سے 10 ارب روپے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس ادائیگی کے لیے تیار ہیں۔
ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ پاکستان خرم مختار نے کہا کہ زیرو ریٹیڈ ریجیم کو واپس لیے جانے اور ایکسپورٹ شعبوں پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ سے کاروبار کی لاگت غیر پائیدار حد تک بڑھ چکی ہے۔
خرم مختار نے برآمد کنندگان کو سیلز ٹیکس ریفنڈ کی ادائیگی میں غیر ضروری تاخیر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، تریخی اضافے کے بعد اکتوبر میں ٹیکسٹائل برآمدات میں 15.23 فیصد کمی واقع ہوئی جس کی بنیادی وجہ برآمد کنندگان کو درپیش سخت لیکویڈیٹی بحران تھا۔
تمام یقین دہانیوں کے باوجود ایف بی آر زیرو ریٹڈ سیکٹرز کو سیلز ٹیکس ریفنڈز 72 گھنٹوں کے اندر ادا کرنے میں ناکام رہا جب کہ ایکسپورٹرز کے ریفنڈ کلیمز کی ادائیگی ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔
جس کے نتیجے میں یہ سیکٹر کے ورکنگ کیپیٹل کو متاثر کر رہا ہے جس برآمدی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو رہے ہیں جو کہ مسلسل کم ہو رہے ہیں۔
ٹیکسٹائل برآمدات رواں مالی سال 19.35 ارب ڈالر سے بڑھ کر 25 ارب ڈالر اور آئندہ 5 برسوں میں 50 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔