پاکستان

’پاک امریکا تعلقات کا فیصلہ وزیراعظم پاکستان نہیں، آرمی چیف کرتے ہیں‘

عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد فوج کو زیادہ حمایت ملنے کی توقع نہیں، اگلے آرمی چیف کے لیے صورتحال بڑا چیلنج ہوگی، شرکا کا سیمینار میں اظہار خیال

سابق وزیر اعظم عمران خان کی اقتدار میں واپسی ہوگی یا نہیں لیکن اس کے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل پر زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے کیونکہ اسلام آباد میں ایسے فیصلے وزیراعظم نہیں، آرمی چیف کرتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار امریکی دارالحکومت میں پیر کی شام ایک سیمینار میں کیا گیا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں وائٹ ہاؤس میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی ذمے دار لیزا کرٹس نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستان میں وزیر اعظم کون ہوگا، زیادہ اہم یہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کون ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوج ہی اس ملک میں امریکا کے لیے اہم تصور کیے جانے والے امور جیسے جوہری پروگرام، پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات اور انسداد دہشت گردی جیسے معاملات پر فیصلہ سازی کو کنٹرول کرتی ہے۔

تاہم لیزا کرٹس نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کی ہائبرڈ جمہوریت پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہوگی کیونکہ یہ فطری طور پر حکومت کی غیر مستحکم شکل ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان کی اقتدار میں واپسی امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے، تو انہوں نے کہا کہ اگرچہ عمران خان نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد امریکا کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا، اگر وہ دوبارہ منتخب ہو بھی جائیں، تو ایک خاص قسم کی عملیت پسندی صورتحال کا حصہ بن سکتی ہے، ان کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی۔

ایک سابق سی آئی اے آپریٹو ڈگلس لندن، اور متحدہ عرب امارات میں سابق افغان سفیر و تجزیہ کار جاوید احمد اور واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن میں پاکستان/افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر مارون وینبام کے زیر اہتمام سیشن کی نظامت کی۔

لیزا کرٹس اور حسین حقانی دونوں کا خیال تھا کہ پاکستان اور امریکا اتنے قریب نہیں ہیں جتنا کہ اس وقت تھے جب امریکا، افغانستان میں موجود تھا، لیزا کرٹس نے کہا کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ پاکستان، چین کے قریب نہ جائے اور افغانستان کے حوالے سے اسلام آباد کے بارے میں منفی خیالات اب بھی موجود ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان، یوکرین میں اس کی حمایت کرے۔

ڈگلس لندن نے کہا کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی آئی ہے اور واشنگٹن، اسلام آباد کو مکمل طور پر کھونا نہیں چاہتا کیونکہ یہ ایک ایٹمی ریاست ہے۔

جاوید احمد نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان کے پاس کسی بھی وقت خود کو برباد کرنے کے تمام اجزا موجود ہیں، حسین حقانی نے نوٹ کیا کہ تقسیم ہند کے بعد امریکا اور پاکستان کے تعلقات اسلام آباد کے لیے ایک اقتصادی ضرورت کے طور پر شروع ہوئے، لیکن پاکستان کے رہنماؤں نے اقتصادی پہلو پر بہت کم توجہ دی حالانکہ تعلقات کی بقا فوجی نہیں اقتصادی ہونی چاہیے۔

لیزا کرٹس نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے امریکا کے بنیادی خدشات جوہری ہتھیاروں کا تحفظ اور ایک ناکام ریاست کے حوالے سے تحفظات ہیں، جاوید احمد نے کہا کہ عمران خان کے الزامات کی وجہ سے امریکا، پاکستان کی موجودہ سیاسی لڑائی میں ایک فریق بن گیا ہے، جبکہ ڈگلس لندن نے خبردار کیا کہ اگر انتخابات نہ ہوئے اور کسی طرح کا اتفاق رائے نہ ہوا تو پاکستان میں کسی بھی وقت آگ بھڑک سکتی ہے۔

حسین حقانی کا ماننا ہے کہ فوج اب بھی سیاسی پیش رفت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ کوششیں پس پردہ کی جارہی ہیں، لیزا کرٹس نے تبصرہ کیا کہ فوج کو عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر حمایت ملنے کی توقع نہیں اور اب سیاسی صورتحال اگلے آرمی چیف کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگی جسے ادارے کے اندر سب سے پہلے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔

حسین حقانی نے پیش گوئی کی کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اگلے انتخابات میں جیت سکتے ہیں، لیکن کلین سویپ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اتنے مقبول نہیں جتنا کہ لگتا ہے، مارون وینبام اور جاوید احمد نے گو کہ اس بات سے اتفاق نہیں کیا تاہم جاوید احمد کا کہنا تھا کہ کہ پی ٹی آئی کے حامی فوج کے لیے ایک ’بڑا چیلنج‘ بنے رہیں گے۔

لیزا کرٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں اور اگر وہ چاہیں تو امریکا مخالف جذبات کو بھڑکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔