امریکی اور چینی صدر کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات اہم کیوں ہے؟
اب تک چند ہی جی20 اجلاس ایسے ہوئے ہیں جو ایک سرد جنگ اور ایک روایتی جنگ کے دوران منقعد ہوئے ہیں۔ یوکرین جنگ کے علاوہ امریکا اور چین کے مابین تناؤ نے بالی میں ہونے والے اس جی20 اجلاس کو خطرے میں ڈالا ہوا تھا۔ اس اجلاس کے ایجنڈے میں یوکرین پر روسی جارحیت کا موضوع چھایا ہوا تھا لیکن روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
اجلاس میں اس بحران سے پیدا ہونے والا جیو پولیٹیکل تناؤ اور اس کے دُور رس اثرات پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔ ان اثرات میں سپلائی چین میں پڑنے والا خلل اور خوراک اور توانائی کی بڑھتی قیمتیں بھی شامل ہیں۔ معاشی لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک کے اس اجلاس میں جیوپولیٹکس کا ہی غلبہ رہا۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس سے خطاب کیا۔ انہوں نے روسی افواج کے انخلا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا ساتھ اس امن معاہدے کی تجویز کو مسترد کیا جو ان کے ملک کی ’خودمختاری، زمین، اور آزادی‘ کو ختم کردے گا۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ’یہ دور جنگ کا دور نہیں ہونا چاہیے‘ اور یہ کہ جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنا یا انہیں استعمال کرنے کی دھمکی دینا ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دراصل صدر پیوٹن کی جانب سے یوکرین بحران کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کی جانب اشارہ تھا اور اس بیان سے روس کو اہم پیغام دیا گیا ہے۔
تاہم اس اجلاس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات عالمی استحکام کے لیے زیادہ اہم تھی کیونکہ اس ملاقات سے 2 عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ کھل کر ظاہر ہوا۔
اس بالمشافہ ملاقات میں دونوں سربراہان کے افتتاحی بیانات مثبت تھے۔ دونوں نے ہی دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا جو حالیہ برسوں میں پست ترین سطح پر آگئے تھے اور یوں دنیا پر ایک نئی سرد جنگ کا خطرہ منڈلارہا تھا۔
شی جن پنگ نے جو بائیڈن سے کہا کہ دنیا ایک موڑ پر کھڑی ہے جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ دوطرفہ تعلقات کی درست سمت کا تعین کریں اور اسے بہتر بنائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ چین امریکا تعلقات کی موجودہ صورتحال دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے اور انہیں ’بہتر اور مستحکم راستے‘ پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک مل کر فوری نوعیت کے عالمی مسائل کے حل کے لیے کام کرسکیں۔
انہوں نے بعد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ کسی تنازع کے حق میں نہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکا اور چین کے اس مقابلے کو ’ذمہ دارانہ‘ انداز میں دیکھا جائے تاکہ ایک نئی سرد جنگ سے بچا جاسکے۔
یہ دونوں رہنما اس اجلاس میں اپنی اپنی پوزیشن مستحکم کرکے آئے تھے۔ شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ اقتدار ملا تھا اور بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی نے غیر متوقع طور پر وسط مدتی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور سینیٹ پر کنٹرول برقرار رکھا۔ یہ دونوں رہنما اقتدار میں آنے سے پہلے بھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
ہوسکتا ہے کہ اس تعلق کی وجہ سے ملاقات اچھے ماحول میں ہوئی ہو۔ ان کی 3 گھنٹے طویل اس ملاقات کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ دونوں ممالک کے درمیان غذائی تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے رابطے بڑھانے اور ’اہم عہدیداروں کو بااختیار بنانے‘ کا فیصلہ ہوا۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تائیوان تنازع، تجارتی تنازعات، ٹیکنالوجی کے حوالے سے پابندیاں اور عسکری عزائم جیسے معاملات جو ان کے درمیان کشیدگی کی وجہ ہیں ان پر اختلافات کم ہوئے ہیں۔ بلکہ طرفین نے ایک بار پھر تائیوان کے حوالے سے اپنی حدود کا اظہار کیا ہے۔
اگرچہ بائیڈن نے امریکا کی ون چائنا پالیسی کا اظہار تو کیا لیکن ساتھ ہی تائیوان کے حوالے سے چین کے طرزِ عمل پر خبردار بھی کردیا۔ ان کا خیال ہے کہ چین کا یہ طرزِ عمل جابرانہ ہے جس سے خطے کے استحکام کو خطرہ ہے۔
دوسری جانب شی جن پنگ نے صدر بائیڈن کی اس یقین دہانی کا خیرمقدم کیا کہ امریکا تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ تائیوان سے چین کا اہم ترین مفاد وابستہ ہے اور یہ ’پہلی سرخ لکیر‘ ہے جو ’امریکا چین تعلقات میں پار نہیں ہونی چاہیے‘۔
ان دونوں کی ملاقات سے قبل چینی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے سخت الفاظ میں امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ون چائنا پالیسی کو کھوکھلا کرنے سے باز رہے [اور] بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی پابندی کرے‘۔
بہرحال ایشیا پیسیفک ممالک اور پوری دنیا کے لیے بھی امریکا چین تعلقات میں استحکام لانے کی یہ کوشش ایک خوش آئند قدم ہے کیونکہ شاید ہی کوئی ملک ان دونوں کے خطرناک تصادم کے درمیان آنا چاہے۔
ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے تسلیم کیا کہ اس غیر منظم تنازع میں جانے کا خطرہ خطے میں امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ عدم استحکام اور ریکارڈ مہنگائی سے نبرد آزما عالمی معیشت کو اگر یوکرین کے تنازع اور دو عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی و ٹیکنالوجی کی جنگ سے ہونے والے نقصانات کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی میں کمی ضروری ہے۔
جی 20 سربراہی اجلاس کے میزبان انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدوڈو نے واضح طور پر کہا کہ ’جی 20 کو جامع اقتصادی بحالی کے لیے سہولت کار بننا چاہیے۔۔۔ [اور] دنیا کو تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں دنیا کو ایک اور سرد جنگ میں نہیں پڑنے دینا چاہیے‘۔
انہوں نے ایک ایسے سربراہی اجلاس میں کمزور عالمی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اور تعاون پر زور دیا جس کی تھیم ’ریکوَر ٹوگیدر، ریکوَر اسٹرانگر‘ [مل کر بحالی، مضبوط بحالی] تھا۔
جی20 رہنماؤں کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عالمی معیشت کو ’کثیر الجہتی بحران‘ کا سامنا ہے۔ اعلامیے میں افراطِ زر کو روکنے، کمزور طبقات کی حفاظت، مالیاتی مشکلات اور کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم عالمی بحالی کے کسی منصوبے پر اتفاق نہیں کیا گیا کیونکہ اس کے اراکین کے معاشی مفادات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
درحقیقت جی20 ممالک کے درمیان اختلافات اور خاص طور پر یوکرین جنگ کے حوالے سے اختلافات ان کے رہنماؤں کے بیانات سے واضح تھے۔ 17 صفحات پر مبنی اس اعلامیے میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ ’جی20 سلامتی سے متعلق معاملات کو حل کرنے کا فورم نہیں ہے‘۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’اکثر اراکین نے یوکرین جنگ کی سختی سے مذمت کی‘ تاہم ’[یوکرین کی] صورتحال اور پابندیوں کے حوالے سے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں‘۔
پھر بھی یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی ’سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی‘ اور اس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ عالمی معیشت کے لیے نقصاندہ ہے اور اس سے خاص طور پر قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے جو دنیا میں ایندھن اور غذا کی قلت کا سبب بن رہا ہے۔
اگرچہ کئی مغربی مبصرین کی نظر میں اس اجلاس کا سب سے اہم نتیجہ روسی صدر پیوٹن کی بڑھتی ہوئی تنہائی ہے لیکن یہ جی20 اجلاس جو بائیڈن اور شی جن پنگ کی ملاقات کے حوالے سے بھی یادگار رہے گا۔ اس ملاقات سے امریکا چین تعلقات میں بہتری لانے کا موقع ملا ہے اور اس سے دونوں ممالک ’ذمہ دارانہ مقابلے‘ کی جانب بڑھیں گے۔
یہ مضمون 21 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔