نقطہ نظر

آرمی چیف کی تقرری: ایسی صورتحال تو پہلے کبھی نہیں دیکھی

تقرری کے معاملے پر صرف بحث نہیں بلکہ سیاسی بحث ہورہی ہے اور متوقع امیدواروں کے جھکاؤ اور تعصبات کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔

بہت کم لوگ میری اس بات سے اختلاف کریں گے کہ جیسے جیسے سال اختتام کو پہنچ رہا ہے ویسے ویسے ہمیں ملکی سیاست میں بہت کچھ پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اسی طرح کی ایک چیز جو ہمیں پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے وہ اگلے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ہونے والی کھلی عوامی بحث ہے۔

اس معاملے پر صرف بحث نہیں بلکہ سیاسی بحث ہورہی ہے اور متوقع امیدواروں کے جھکاؤ اور تعصبات کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں اور بیانات بھی دیے جارہے ہیں۔ یہ بحث تک ہو رہی ہے کہ کس امیدوار کا کس سیاسی لیڈر سے اختلاف ہے اور کس کا جھکاؤ کس طرف ہے۔

ہماری ماضی کی روایات میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جمہوری سوچ رکھنے والے صحافی آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر اتنی گفتگو کریں۔ یہ دیکھ کر بہت سے لوگ مایوس ہوئے۔

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ڈان کے ایک سابق ایڈیٹر کا وہ بیان تو یاد ہی ہوگا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری کی خبر اخبار کے پچھلے صفحے پر ایک کالم سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی (اگر مجھے درست یاد ہے تو)۔ آرمی چیف کے لیے امیدواروں کے سیاسی جھکاؤ سے متعلق عوامی گفتگو کو عام لوگ بھی پسند نہیں کر رہے ہیں۔

لیکن وہ ایک کالم شاید ہماری امیدوں کی ترجمانی تھا کہ کیا ہونا چاہیے اور آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق موجودہ مسلسل بحث ہماری حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ہماری سیاست میں یہ تقرری مرکزی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ اس میں کتنی سچائی ہے مگر اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہماری سیاست میں آگے جو ہوگا اس کا کافی حد تک انحصار نئے آرمی چیف پر ہوگا۔ دسمبر کے آتے ہی موجودہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہوجائے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ تیزی سے پھیلتا ہوا یہ بیانیہ ہم سب کے لیے پریشان کن ہونا چاہیے۔

کچھ بھی ہو فوج کا کئی دہائیوں سے ہماری سیاست میں مرکزی کردار رہا ہے۔ کئی آرمی چیف اور وزرائے اعظم کے درمیان اختلافات بھی رہے اور کبھی خوشگوار لمحات کا بھی تبادلہ ہوا۔ لیکن عوامی سیاست کبھی بھی اس ادارے میں سرایت نہیں کرسکی جہاں افراد کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ تاہم اب یہ ماضی کی بات لگتی ہیں۔

آخر اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سب سوشل میڈیا کی وجہ سے ہورہا ہے؟ جہاں نتائج کی پرواہ کیے بغیر بیانات دے دیے جاتے ہیں کہ کس کا جھکاؤ کس طرف ہے اور ایسے تصورات تشکیل دیے جاتے ہیں جو حقیقت سے قریب تر محسوس ہوتے ہیں۔

بلاشبہ، سوشل میڈیا کے اثر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس تبدیلی کے پیچھے سیاسی قیادت بھی ایک وجہ ہے۔ اگر 2 مقبول ترین سیاسی رہنما اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے سخت گفتگو کرتے نظر آئیں گے تو پھر وہ رائے عامہ کی تشکیل پر بھی اثرانداز ہوں گے۔

عمران خان رواں برس اپریل سے اپنی تقاریر میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا بار بار ذکر کرتے رہے ہیں اور یہ سب کرکے وہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے نقشِ قدم پر ہی چل رہے ہیں۔ ان دونوں کے اس بیانیے کی وجہ سے لوگوں کو وہ کچھ سوچنے کا موقع مل گیا جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے سب سے اہم صوبہ پنجاب میں حامیوں کو پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی اہمیت کے حوالے سے قائل کرلیا ہے۔

جبکہ دوسری طرف، مخصوص افراد کا نام لے کر اور ان کی جانب اشارہ کرکے انہوں نے اس بیانیے کو تقویت دی ہے کہ مخصوص افراد پالیسی سازی کرتے ہیں اور ان کی موجودگی یا غیر موجودگی سے کافی فرق پڑتا ہے۔ شاید دونوں جماعتوں کی احتجاجی مہم اور افراد کے حوالے سے ہونے والی حالیہ بحث میں کوئی تعلق ہے۔

لیکن کچھ رجحانات تو 2018ء سے پہلے کے بھی ہیں جو اب بھی اہم ہیں۔

مشرف دور کے بعد عام ہونے والے ان رجحانات کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور ہمیں فکرمند ہونا چاہیے۔ ایسا ہی ایک رجحان مدتِ ملازمت میں توسیع کا بھی ہے پھر چاہے جس فرد کو توسیع دی جارہی ہو وہ کتنا ہی اہل کیوں نہ ہو۔

لیکن یہ پرویز مشرف کے دور سے پہلے بھی عام تھا۔ اس سے قبل بھی آمروں نے اپنی ملازمت کو توسیع دی۔ اب تو بے نظیر بھٹو کی جانب سے جنرل وحید کاکڑ کو توسیع دینے کی پیشکش کی کہانی کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود 1999ء کے مارشل لا سے پہلے جمہوری حکومتوں کے زمانے میں توسیع کی پیشکش اور اسے قبول کرنے کی چند ہی مثالیں موجود ہیں۔

2008ء کے بعد توسیع دیکھنے میں نہیں آئی سوائے جنرل کیانی کو دی جانے والی توسیع، جسے مشکل حالات کو وجہ بتایا گیا۔ اس وقت پاکستان کے اندر اور افغانستان میں تنازعات موجود تھے۔ وہ حالات تو اب ماضی کا قصہ ہوچکے ہیں لیکن اب بھی توسیع کو عام بات تصور کیا جاتا ہے۔ ہم سب کو غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے۔

کیا ایسا ہمارے خودغرض سیاسی رہنماؤں کی وجہ سے ہورہا ہے جو اقتدار میں رہنے کی غرض سے فوجی افسران کو توسیع کی پیشکش کرتے ہیں؟ یا پھر 1990ء کے بعد سیاستدانوں کو یہ لگنے لگا ہے کہ حکومت کی میعاد پوری کرنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے؟ کیا سول ملٹری توازن اتنا بگڑ گیا ہے کہ سیاستدانوں کو اس مسئلے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ یہاں یقینی طور پر سیاستدانوں پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

لیکن یہ حالات کی مکمل تصویر نہیں ہے۔ کچھ جوابات ان تبدیلیوں میں بھی چھپے ہیں جو مشرف دور کے دوران اور اس کے بعد آئے۔ یہ طاقت کے ڈھانچے اور سیاسی معیشت میں ہونے والے تبدیلیوں سے منسلک ہے۔

یہ اس لیے دلچسپ ہے کیونکہ اب صدرِ پاکستان کے پاس حکومت ختم کرنے سے متعلق بدنامِ زمانہ (2)58 بی کا اختیار نہیں جس کا اسٹیلشمنٹ پردے کے پیچھے سے فائدہ اٹھایا کرتی تھی۔ یہ تصور کیا جارہا تھا کہ اس سے طاقت کا توازن سویلین سمت میں جھک جائے گا۔ جبکہ ہم نے جو کچھ دیکھا وہ اس کے برعکس تھا۔ دوسرے الفاظ میں قانونی اعتبار سے تو تبدیلی ہوچکی مگر عہدوں کی اہمیت انتہائی پرکشش بن چکی ہے جس کے سبب نہ اسے دینے والے، نہ لینے والے اور نہ اس توسیع سے متاثر ہونے والے مزاحمت کرتے ہیں۔

یہ موضوعات گفتگو کے لیے حساس ہیں لیکن ان پر خصوصاً اس وقت بات کرنی چاہیے جب ان معاملات کی وجہ سے نہ صرف ہماری سیاسی سمت بلکہ ادارے کے وقار اور کام کرنے کے طریقے کار کے حوالے سے بھی عوام میں خدشات پائے جانے لگیں۔

درحقیقت، گزشتہ سال ہونے والی بحث اور قیاس آرائیوں کے سلسلہ کو ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ تاہم یہ صرف مذمت کردینے سے ختم نہیں ہوگا بلکہ ہمیں وہ وجوہات جاننی ہوں گی جس کی بنا پر ایسا ہوتا ہے۔ اور ایک بار جب سب واضح ہوجائے گا تو کیا ہم اس ناخوشگوار بحث پر روشنی ڈالیں گے جو آرمی چیف کی تبدیلی کی تاریخ قریب آتے ہی مزید متنازع اور غلیظ ہوتی جا رہی ہے؟

ان مقاصد کے لیے عوامی بحث کو متعلقہ افراد کے خلاف تنازع پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس طرح الیکشن کے دوران سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کی عوامی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ یہ کھیل اسی وقت کھیلا جاتا ہے جب مفادات حد سے بڑھ جاتے ہیں۔


یہ مضمون 22 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔