ایک بار پھر پاکستان کے نادہندہ ہونے کی خبریں: آخر صورتحال ہے کیا؟
پوری دنیا میں اس وقت معاشی صورتحال نہایت دگرگوں ہے۔ کورونا میں دیے گئے مالیاتی پیکجز کی وجہ سے اس وقت دنیا مہنگائی کا سامنا کررہی ہے جبکہ روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں ایندھن مہنگا ہورہا ہے۔
اس پوری صورتحال میں حکومتیں خصوصاً امریکی معیشت میں تیزی سے شرح سود کو بڑھایا جارہا ہے تاکہ مصنوعات کی کھپت کو کم کرکے مہنگائی کی شرح جو امریکا میں 7 فیصد ہے اس کو کم کیا جاسکے۔
دنیا میں جاری اس معاشی بحران کے ساتھ ہی مقامی صنعتوں اور معیشتوں کو سہارا دینے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک کی مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ چند ماہ قبل سری لنکا اس وقت خبروں کی زینت بنا جب وہاں حکومت اپنے قرضوں کی بروقت ادائیگی نہیں کرسکی اور شدید عوامی احتجاج کے سبب حکمران طبقے کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔
عالمی مالیاتی اداروں اور معیشت سے متعلق پیشگوئی کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال عالمی معیشت 5 فیصد سے زائد کی شرح سے بڑھی جبکہ اس سال 2 فیصد یا اس سے کم ترقی کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال دنیا میں مہنگائی 4 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 8 فیصد ہوگئی اور آئندہ سال 6 فیصد تک ہونے کی توقع ہے۔ لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں مہنگائی کی شرح 27 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
دنیا میں جاری اقتصادی اور معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تو متاثر ہوہی رہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے بھی معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور معیشت پر سیاست نے پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر پائے جانے والے تاثر کو منفی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ عالمی سفارتکاری اور سیاست میں پاکستان کی پوزیشن بھی معاشی مشکلات کو کچھ بڑھا رہی ہے۔
اس تحریر میں ہم صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے مگر پہلے ہم اس پر بات کرتے ہیں کہ کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ کیا ہے اور اس پر سیاست کیوں ہورہی ہے۔
کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ
گزشتہ دنوں غیر ملکی میڈیا نے خبر دی کہ پاکستان کا کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بیان دیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے والا ہے۔ بس پھر کیا تھا، میڈیا نے صورتحال سمجھے بغیر ہی اس پر تبصرے اور تجزیے شروع کردیے کہ کیا پاکستان واقعی ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے والا ہے۔
ان تمام تر تجزیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے ملک کے نادہندہ ہونے کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنے بیرونی قرضوں پر کبھی پہلے نادہندہ ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی تمام بیرونِ ملک ادائیگیوں کو پورا کرے گا اور آئندہ 2 ہفتوں میں پاکستان کو کمرشل مارکیٹ سے حاصل کردہ سکوک بانڈز کی ادائیگی کرنی ہے جسے بروقت ادا کیا جائے گا۔ وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ایندھن کی قلت اور کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ کی باتیں سیاسی وجوہات کی بنا پر پھلائی جارہی ہیں۔
تو سوال پھر اب وہی ہے کہ یہ کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ (سی ڈی ایس) ہوتا کیا ہے۔
دراصل بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹ میں کسی بھی تجارتی قرض کو لینے کے لیے اس کی انشورنس بھی کروائی جاتی ہے جو قرض لینے والے مالیاتی ادارے کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ یہ پریمیم کیا ہوگا اس کا تعین ایک انڈیکس کے ذریعے کیا جاتا ہے جس کو کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ کہا جاتا ہے۔ جن ممالک کی قرض واپس کرنے کی صلاحیت جس قدر کمزور ہوگی ان کا سی ڈی ایس اسی قدر زیادہ ہوگا۔
معاشی ماہر اور تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ ’سی ڈی ایس کا استعمال تجارتی قرضوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق غیر تجارتی قرضوں پر نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت بھی 8 ارب ڈالر سے زائد سرکاری زرِمبادلہ ذخائر موجود ہیں جبکہ 5 دسمبر کو ایک ارب ڈالر کے تجارتی قرضے کی ادائیگی کرنی ہے جو مشکل کام نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کو سی ڈی ایس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ اس کے مجموعی قرضے کا 43 فیصد عالمی مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ) سے لیا گیا ہے جبکہ 40 فیصد قرض دوست ممالک بشمول سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، امریکا اور دیگر ممالک سے لیا گیا ہے۔ اگر تجارتی قرض کی بات کی جائے تو یہ مجموعی قرض کا صرف 7 فیصد ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ سی ڈی ایس کی وجہ سے پاکستان نادہندہ ہوجائے گا تو ایسا نہیں ہے‘۔
کیا پاکستان معاشی طور پر مستحکم سطح پر ہے؟
اگر سی ڈی ایس کے بڑھنے سے پاکستان کے نادہندہ ہونے کے امکان نہیں ہیں تو کیا پاکستان معاشی طور پر ایک مستحکم سطح پر کھڑا ہے؟ نہیں ایسا بھی نہیں۔ درحقیقت پاکستان اس وقت تقریباً ویسی ہی صورتحال سے دوچار ہے جیسی 1998ء میں ایٹمی تجربات کے بعد تھی۔ مگر اس وقت اعداد و شمار اور بعض وجوہات مختلف ہیں۔
جیسا کہ میں نے آئیڈیاز دفاعی نمائش سے متعلق اپنی تحریر میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ دنیا میں اس وقت سیاسی تنظیمِ نو ہورہی ہے اور اسی سیاسی تناؤ کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی قیمت اور پیداوار کے حوالے سے تناؤ پیدا ہوا جس پر پاکستان نے امریکا کے بجائے سعودی عرب کے عمل کو درست قرار دیا۔
ساتھ ہی وفاقی حکومت نے روس سے گندم کی خریداری کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اس کے بعد سے امریکا اور پاکستان میں سفارتی تناؤ بڑھ گیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک پر امریکی اور مغربی اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے باوجود آئی ایم ایف نے کسی قسم کے معاشی ریلیف میں تامل کا اظہار کیا ہے اور حکومت کو 800 ارب کے نئے ٹیکس لگانے، مانیٹری پالیسی سخت کرنے اور روپے کی قدر کو مزید گرانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
اس وقت پاکستان میں انٹر بینک مارکیٹ میں سرمائے کی قلت نظر آرہی ہے۔ پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ گزشتہ 6 ماہ سے اوسطاً ہر مہینے 50 کروڑ ڈالر کی شرح سے کمی ہورہی ہے۔ فروری اور مارچ میں 12 ارب ڈالر سے آج ہمارے پاس 8 ارب ڈالر ہیں جو صرف 36 دنوں کی درآمدات کے مساوی ہیں۔ اگر معیشت کمزور ہو تب بھی اسے 3 ماہ کی درآمدات کے مساوی ہونا چاہیے اور بہتر معیشت کے لیے 6 ماہ کے درآمدی بل کے مساوی رکھنا ہوتے ہیں۔
اسی لیے درآمد کنندہ گان کو ایل سی کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان نے ڈالر بچانے کے لیے درآمدات کو تو کم کردیا ہے مگر ساتھ ہی برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں بھی کمی ہورہی ہے۔ جس سے پاکستان کی زرِمبادلہ کمائی میں کمی ہورہی ہے، یوں قرضوں کی ادائیگیاں مشکل ہوسکتی ہیں۔ پاکستان کو اس سال 22 ارب ڈالر کے قرض ادا کرنے ہیں اور اسی کے مساوی بیرونی مالیاتی معاونت کا انتظام پاکستان کو دستیاب ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان پر کتنا دباؤ ہے اس کا اندازہ 25 نومبر کو ہونے والے اسٹیٹ بینک کے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس سے ہوجائے گا۔ اگر بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا گیا تو یہ واضح اشارہ ہوگا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اپنی معیشت میں طلب کو کم کرنے پر زور دے رہا ہے۔
اگر پاکستان کو آئی ایم ایف کے دباؤ سے نکلنا ہے تو اسحٰق ڈار کے اعلان کردہ 13 ارب ڈالر کے پیکج جو دوست ملک چین اور سعودی عرب سے مل رہا ہے اسے جلد از جلد ایک شکل دے کر اس پر عمل کروانا ہوگا مگر لگتا یوں ہے کہ دوست ملک بھی نومبر میں ہونے والی عسکری تقرری اور لانگ مارچ کے سیاسی اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان حالات سے نکلنے کے بعد ہی وہ پاکستان کے ساتھ اپنا دست تعاون دراز کریں گے۔
یہاں ہم اتنا تو ضرور کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے ناہندہ ہونے کا امکان نہیں مگر ہاں ملک میں جاری معاشی حالات بھی بہتر ہوتے نظر نہیں آرہے اور مستقبل قریب میں عوام کو مزید معاشی مشکلات کا سامنا رہے گا۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔