کراچی: مفتی اعظم پاکستان رفیع عثمانی کی تدفین کردی گئی
مفتی اعظم پاکستان اور معروف عالم دین رفیع عثمانی کی دارالعلوم کراچی میں تدفین کردی گئی، ان کی نماز جنازہ میں ملک اور بیرون ممالک سے مفتیان اکرام، علمائے کرام اور عقیدت مندوں نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔
مفتی رفیع عثمانی کی نماز جنازہ ان کے بھائی مفتی تقی عثمانی نے پڑھائی جہاں پولیس اور رینجر کی بھاری نفری تعینات تھی جبکہ بم ڈسپوزل عملے کی جانب سے بھی انتظامات کیے گئے تھے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کی نماز جنازہ میں پورے پاکستان اور دیگر ممالک سے لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
نماز جنازہ میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری، علامہ اورنگزیب فاروقی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکریٹری قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا انوار الحق حقانی، مولانا سید سلیمان باقر، کن قومی اسمبلی محمّد ابو بکر، رؤف صدیقی، سلیم تاجک، وسیم آفتاب اور رکن صوبائی اسمبلی سید ہاشم رضا سمیت متعدد مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔
مفتی محمد رفیع عثمانی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر، کراچی یونیورسٹی اور ڈاؤ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ رکن، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی اور زکوٰۃ و عشر کمیٹی سندھ کے رکن اور سپریم کورٹ آف پاکستان اپیلٹ بینچ کے مشیر بھی رہے۔
مفتی رفیع عثمانی 21 جولائی 1936 کو متحدہ ہندوستان کے علاقے دیوبند میں پیدا ہوئے اور 1986 میں دارالعلوم کراچی کے صدر بنے۔
مفتی رفیع عثمانی کی تعلیم اور خدمات
مفتی اعظم پاکستان محمد رفیع عثمانی 21 جولائی 1936 کو متحدہ ہندوستان کی ریاست اُترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبے دیوبند میں تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما مفتی اعظم محمد شفیع عثمانی کے گھر پیدا ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کا آغاز دارالعلوم دیوبند سے کیا اور 1947 میں خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آئے تو آپ کی عمر 12 سال تھی۔
مفتی رفیع عثمانی نے 1948 میں مسجد باب السلام آرام باغ کراچی سے حفظ قرآن مکمل کیا اور 1951 میں اپنے والد کی قائم کردہ دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی نانک واڑہ میں درس نظامی کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا اور ان کا شمار دارالعلوم کے اولین طلبہ میں ہوتا تھا۔
مفتی رفیع عثمانی نے 1960 میں عالم فاضل، مفتی کی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ دارالعلوم کراچی سے ہی تدریس کا آغاز کیا اور 1971میں دارالافتا اور دارالحدیث کی ذمہ داریاں سنبھال لی۔
انہوں نے 1976 میں مفتی شفیع عثمانی کے انتقال کے بعد دارالعلوم کراچی کا انتظام سنبھال لیا اور ان کی کاوشوں سے دارالعلوم کراچی کا شمار آج پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔
مفتی رفیع عثمانی کو 1995 میں مفتی اعظم ولی حسن ٹونکی کے انتقال کے بعد علمی خدمات پر علمائے کرام نے مفتی اعظم پاکستان کا منصب دیا اور انہوں نے اہم مواقع پر رہنمائی کی۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے 2 درجن سے زائد تحقیقی پرچے، کتابیں تحریر کیں، جن میں اختلاف رحمت، فرقہ بندی حرام، دو قومی نظریہ، فقہ میں اجماع کا مقام، یورپ کی جاگیرداری، سرمایہ داری اور اشتراکی نظام کا تاریخی پس منظر اور مسلکِ دیوبند فرقہ نہیں اتباع سنت سمیت دیگر کتب شامل ہیں۔
مفتی محمد رفیع عثمانی کے انتقال پر صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر علمائے کرام نے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔