امریکا کا روس سے مذاکرات کیلئے یوکرین پر دباؤ
امریکا نے یوکرین پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ماسکو کے ساتھ امن کے لیے مذاکرات کرے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پینٹاگون حکام نے کہا ہے کہ کیف کی فورسز کو ان علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے جس پر روس نے جنگ کے دوران قبضہ کرلیا ہے۔
امریکی جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا کہ امریکی اور اتحادیوں نے سپورٹ میں کمی نہیں کی لیکن کیف کی جانب سے روسی جارحیت کا کامیابی سے مقابلہ کرنے سے وہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں آ گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جنرل مارک ملی نے موجودہ حالات کا جنگ عظیم اول سے موازنہ کیا تھا، جب دونوں طرف سے مہینوں کے اندر آگے بڑھنا ناممکن ہو گیا تھا لیکن وہ لاکھوں زندگیوں کی قیمت پر تین سال سے زیادہ عرصے تک لڑتے رہے تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ روس اب دوبارہ یوکرین کے 20 فیصد حصے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ فرنٹ لائن مقامات خارکیف سے لے کر کھیرسن تک استحکام آرہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کی فوج کے جیتنے کے امکانات، یعنی پورے یوکرین سے روس کو بے دخل کرنا، جس میں کریمیا بھی شامل ہے، اس کے جلدی ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔
جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ اس کا سیاسی حل ہوسکتا ہے، یہ ممکن ہے کہ سیاسی طور پر روس انخلا کرلے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو طاقت ور پوزیشن کی وجہ سے مذاکرات کرنے چاہئیں، روس اس وقت پیچھے ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ امریکا کیف پر مذاکرات کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کررہا۔
جان کربی نے بتایا کہ صرف یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی طے کریں گے کہ آیا وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور یہ کس قسم کے ہوں گے۔
کیف پوسٹ نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں مہینے کے اوائل میں ولادیمیر زیلینسکی پیشگی شرط سے پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ اگر روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو حکومت سے نکالا جاتا ہے تو وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے روس کے ایس وی آر انٹیلی جنس کے سربراہ سرگئی نیرشکن سے انقرہ میں ملاقات کی تھی، جو فروری میں جنگ شروع ہونے کے بعد اعلیٰ سطح کی پہلی ملاقات تھی۔
اس ملاقات کی تفصیلات اب تک خفیہ ہیں لیکن اس کے فوری بعد ولیم برنس کیف چلے گئے تھے جہاں انہوں نے یوکرین کے صدر سے ملاقات کی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ولیم برنس کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کر رہے، ہم اپنے بنیادی اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہیں، یوکرین کے بارے میں یوکرین کے بغیر کچھ نہیں۔
یوکرین کو امریکا کی بھرپور امداد جاری ہے، رواں ہفتے وائٹ ہاؤس نے کانگریس سے کیف کی مدد کے لیے مزید 38 ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا۔
لیکن یہ جنرل مارک ملی کے نظریے سے متصادم نہیں ہے، جنہوں نے گزشتہ ہفتے نیویارک میں کہا تھا کہ یوکرین میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہو چکی ہے، جو روس کے نقصانات کے اندازے کے مطابق ہیں، اس میں 40 ہزار شہری بھی ہلاک ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں اگست سے دسمبر 1914 کے درمیان 10 لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے تھے لیکن کسی طرف سے بھی مذاکرات نہیں کیے گئے اور 1918 تک 2 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، لہٰذا جب بھی مذاکرات کا موقع ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔