پاکستان

لانگ مارچ کا مقصد آرمی چیف کے تقرر کو متنازع کرکے ملک سے کھیلنا ہے، بلاول بھٹو

اگر مقصد مارشل لا یا فوری انتخابات نہیں تو لانگ مارچ کے لیے اسی ہفتے کا انتخاب کیوں کیا گیا، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے لانگ مارچ کے حوالے سے عمران خان کو اعلان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد حقیقی آزادی یا جمہوریت ہے، تو پھرلانگ مارچ کے لیے اسی ہفتے کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کا مطلب ہے کہ آرمی چیف کے تقرر کے آئینی اور قانونی عمل کو متنازع کر کے سیاست کی جائے اور ایک بار پھر اس ملک کی قسمت کے ساتھ کھیلا جائے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ اگر لانگ مارچ کا مقصد حقیقی آزادی یا جمہوریت ہے اور اگر آج بھی مقصد مارشل لا یا فوری انتخابات نہیں ہے، تو پھر آپ نے لانگ مارچ کے لیے اسی ہفتے کا انتخاب کیوں کیا اور آپ کا مقصد حقیقی آزادی ہے اور پاکستان کو ایک بار پھر آمریت کی طرف لے کر جانا نہیں ہے تو آپ نے راولپنڈی میں خطاب کرنے کا انتخاب کیوں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آئینی اور قانونی عمل کو متنازع کیا جائے، اس پر سیاست کی جائے اور ایک بار پھر اس ملک کی قسمت کے ساتھ کھیلا جائے اور ہم یہ افورڈ نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان سے مطالبہ ہے کہ اس عمل کو آئینی اور قانونی طریقے سے مکمل کرنے دیں، اس کے بعد راولپنڈی میں آکر جلسہ کریں، اسلام آباد میں آ کر جلسہ کریں، اپنے مطالبات بار بار دہراتے رہیں، مگر اسی ہفتے اور وہ بھی راولپنڈی سے یہ تماشا کریں گے توسب جانتے ہیں کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔

بلاول بھٹو نے سوال اٹھایا کہ کیا عمران خان نے اس ملک کی جمہوریت کے ساتھ کھیلنا ہے، وہی دھمکی جو آپ نے عدم اعتماد کے وقت دی تھی، ایک بار پھر کروانے جارہے ہیں کہ یا جلدی انتخاب کرو یا مارشل لا ہوگا۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کی جمہوریت کا جو تازہ ترین امتحان تھا وہ عمران خان کی سیاست کی کہانی ہے، اس کو سلیکٹ کروانے والا سفر سب کے سامنے ہے، اسے اس ملک پر مسلط کرنے کے جو اثرات ہوئے وہ آپ کے سامنے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستانی کی جمہوریت کو نقصان ہوا، پاکستان کی جمہوریت نے 2008 سے 2013 کے درمیان جو ترقی کی، دو قدم آگے ایک قدم پیچھے، پھر دو قدم آگے ایک قدم پیچھے، اس کو جو نقصان پہنچایا گیا وہ آپ کے سامنے ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچایا گیا، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کا دنیا میں جو مقام ہے اس کو نقصان پہنچایا، پاکستانی معیشت، جمہوریت یا خارجہ پالیسی کا نقصان ہو، اس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔

’ایک وزیراعظم کی انا کی وجہ سے خارجہ پالیسی کو نقصان ہوا‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جن ریاستوں کے ساتھ تعلق تھا، اس کو نقصان پاکستان کی پالیسی یا عوام کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی ایک وزیراعظم کی انا اور کردار کی وجہ سے ہوا، خارجہ پالیسی کو نقصان، ہمارے خطے میں، مشرق وسطی سے لے کر امریکا تک سے تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا اور اس کا بوجھ عام آدمی کو اٹھانا پڑتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ عمران خان کے نام نہاد لانگ مارچ کا کوئی جمہوری مقصد نہیں ہے، عمران خان نے غیرجمہوری قوتوں کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاست کی ہے اور جب یہ ادارہ جاتی فیصلہ کیا گیا، پاکستان کے ادارے ماضی کی طرح متنازع کردار ادا نہیں کرنا چاہتے اور آئینی کردار کی طرف ٹرانزیشن کرنا چاہتے ہیں تو اس بات کا ہر پاکستانی خیر مقدم کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی جمہوریت اور ملک نے ترقی کرنا ہے تو ہر ادارے کو آئین میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہے لیکن چند ایسے سیاست دان، گروپس اور لابیز ہیں، جن کے لیے آئینی کردار کی طرف ٹرانزیشن کرنے کا فیصلہ عملی طور پر ہو جاتا ہے تو ان کی سیاست ختم ہو جاتی ہے۔

’وہ سمجھتے ہیں، ان کا مستقبل ادارے کے متنازع کردار سے جڑا ہے‘

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب سے یہ نظر آیا کہ ایسا ہوسکتا ہے تو عمران خان اس کوشش میں ہے کہ وہ کسی طریقے اسے سبوتاژ کرے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی مستقبل ادارے کے متنازع کردار سے جڑا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئینی طریقے سے عدم اعتماد لے کر آئے تو عمران خان نے اس وقت بھی ہر وہ کوشش کی کہ اس فیصلے کو سبوتاژ کیا جائے۔

ان کو کہنا تھا کہ میں نے اسمبلی میں کہا تھا کہ حکومت وقت نے دھمکی دی ہے کہ مارشل لا ہو گا یا انتخاب ہو، یہ آپ کا فیصلہ ہے، اور اسے اکسانے کے لیے عمران خان نے جان بوجھ کر آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی، عمران خان کی وہ کوشش ناکام ہوگئی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ اس حد تک گر گیا، عمران خان تاحیات توسیع دے رہا تھا اور اسے مسترد کیا گیا، یہ بھی پاکستان کی خوش قسمتی ہے، ملک کو سامنے رکھتے ہوئے، اپنے ارادے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا اوراس لیے تاحیات توسیع کو مسترد کیا گیا تاکہ متنازع کے بجائے آئینی کردار ادا کیا جائے۔

’عمران خان اور تمام طاقتوں کو پیغام ہے، کھیل کھیلنا بند کریں‘

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور تمام طاقتوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اب کھیل کھیلنا بند کریں، نہ پاکستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ پاکستان کے عوام برداشت کرسکتے ہیں اور جو مثال آج دے رہے ہو، یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت ہی خطرناک ہوگا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر حقیقی آزادی یا جمہوریت مقصد ہے اور اگر آج بھی مقصد مارشل لا یا فوری انتخابات نہیں ہیں، تو پھر آپ نے لانگ مارچ کے لیے اسی ہفتے کا انتخاب کیوں کیا اور آپ کا مقصد حقیقی آزادی ہے اور پاکستان کو ایک بار پھر آمریت کی طرف لے کر جانا نہیں ہے تو آپ نے راولپنڈی میں خطاب کرنے کا انتخاب کیوں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ آئینی اور قانونی عمل کو متنازع کیا جائے، اس پر سیاست کی جائے اور ایک بار پھر اس ملک کی قسمت کے ساتھ کھیلا جائے لیکن ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر سازش کا مقابلہ کرکے اسے ناکام بنایا، اور آج بھی آپ کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے آپ سے درخواست کر رہے ہیں کہ ہم سب سیاست دان ہیں، ہم نے پاکستان میں رہ کر سیاست کرنی ہے، جیسے ہم اس قسم کی سیاست سے گریز کریں گے تو پاکستان کی جمہوریت اور معیشت ترقی کرے گی اور جب تک ایسے کھلونے رہیں گے جو ہمارے ملک اور نظام کی قسمت کے ساتھ کھیلتے رہیں گے تو اس کا نقصان پاکستان کے عوام کو اٹھانا پڑے گا۔

سعودی ولی عہد کا دورہ ملتوی ہونے سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میں وزیرخارجہ کی حیثیت سے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ محمد بن سلمان کا دورہ ملتوی ہونے کی وجہ صرف عمران خان کا لانگ مارچ ہے، انہوں نے ایک دو اور ممالک میں جانا تھا اس لیے وہ دورہ ملتوی ہوا، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کے فیصلے میں اس (لانگ مارچ) کا بھی کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج پریس کانفرنس کا مقصد تھا کہ پاکستان کے عوام کو سمجھانے کی کوشش کروں کہ یہ حرکتیں اور اس قسم کی سیاست کا مقصد یہ ہے کہ آرمی چیف کے تقرر کا جو آئینی اور قانونی طریقہ ہے اس کو متنازع بنائیں، اس لیے عمران خان سے درخواست ہے کہ لانگ مارچ آگے لے کر جائیں تاکہ میں الزام نہ لگا سکوں کہ آپ نے متنازع بنانے کے لیے لانگ مارچ کیا۔

آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیراعظم جو بھی آرمی چیف تعینات کریں گے، پوری قوم ان کو اپنا سپہ سالار تسلیم کرے گی، پیپلز پارٹی بھی سپورٹ کرے گی۔

’صدر علوی نے گڑ بڑ کی کوشش کی تو نتیجہ بھگتنا پڑے گا‘

صدر مملکت عارف علوی کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کیا صدر عارف علوی پاکستانی عوام، آئین، جمہوریت کے ساتھ وفاداری دکھائیں گے یا عمران خان سے دوستی نبھائے گا، امید ہے اس وقت آئین و قانون کے تحت ساری چیزیں چلیں گی، اگر صدر عارف علوی نے کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو پھر انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔

ایک سوال پربلاول بھٹو نے کہا کہ ہر تین سال بعد راولپنڈی میں دھرنا ہوگا اگر ہم اس طریقے سے سیاست کھیلیں گے تو یہ پاکستان کی سیاست اور ادارے کے لیے خطرناک نظیر ہوگی۔

وزیرخارجہ کی پریس کانفرنس کے دوران پنجاب میں گورنر راج لگانے سے متعلق سوال پوچھا گیا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک گورنر راج کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے کارڈ ابھی بھی حکومت کے پاس ہیں جو ہم نے نہیں کھیلے۔

ابھی 18 کی ہوں، 22 سال کی ہوجانے پر شادی کروں گی، ربیکا خان

ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں، سکوک بانڈ کی ادائیگی وقت پر کریں گے، اسحٰق ڈار

مقبوضہ کشمیر: صحافیوں کے گھروں پر بھارتی پولیس کے چھاپے