بجلی کی مسلسل بڑھتی قیمتوں کو گھٹانے کے لیے کن فیصلوں کی ضرورت ہے؟
دنیا میں توانائی کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور مہنگا ہوتا ایندھن ہر ملک کی معیشت کو متاثر کررہا ہے۔ یہ توانائی کا بحران ہی ہے جس کی وجہ سے معیشتوں کو مہنگائی میں اضافے، افراطِ زر یا انفلیشن کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں توانائی کا مسئلہ دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہے۔
پاکستان میں ایندھن کی قیمتوں میں اس سال ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس اضافے کا اثر بجلی کے بلوں پر بھی پڑا ہے مگر ایندھن اتنا مہنگا کیوں ہوا اس کی بڑی وجہ عالمی منڈی میں ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے جس کی وجہ سے بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھ گئی ہے۔
بجلی کے مہنگا ہونے کی وجہ سے قومی خزانے پر توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ گردشی قرضہ ہی بنا ہوا ہے۔ مالی سال 22ء-2021ء کے اختتام پر گردشی قرضہ 2 ہزار 280 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔
بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے شعبے میں نقصانات، بلوں کی وصولی نہ ہونا، سستی بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کا کم استعمال، نادہندگان کو بجلی کی فراہمی جاری رکھنا اور سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر گردشی قرضے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈیسکوز کی جانب سے بلوں کی وصولی کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جاتے۔ اس تحریر میں ہم جائزہ لیں گے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کس وجہ سے ہوا اور اس کو کم کرنے کے لیے کیا منصوبے زیرِ التوا ہیں۔
پاکستان میں وضع کردہ بجلی کے ٹیرف کے مطابق اس میں 80 فیصد لاگت ایندھن کی ہوتی ہے۔ اگر ایندھن کی قیمت میں کمی ہوجائے تو پھر اس کا فائدہ صارفین کو پہنچایا جاتا ہے اور اگر ایندھن کی قیمت بڑھ جائے تو اسے وصول بھی صارفین سے ہی کیا جاتا ہے۔ عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمتوں کے اچانک بڑھنے کی وجہ سے بجلی صارفین کو اضافی فیول چارجز ایڈجسمنٹ (ایف سی اے) کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی فراہمی کے حوالے سے دو ٹیرف باسکٹ استعمال ہوتی ہیں۔ ایک ٹیرف باسکٹ سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) مرتب کرتی ہے جس سے واپڈا کی جانب سے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو فراہم کردہ بجلی کی قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ دوسری باسکٹ کے الیکٹرک مرتب کرتی جس میں وہ سی پی پی اے سے ملنے والی بجلی کے ساتھ اپنے وسائل اور براہِ راست آئی پی پیز سے خریدی گئی بجلی کو ملا کر ایف سی اے کا تعین کرتی ہے۔
عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمتوں کے اچانک بڑھنے کی وجہ سے بجلی صارفین کو اضافی ایف سی اے کا سامنا کرنا پڑا اور اس پر عوام کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے مارچ 2022ء میں ایف سی اے پر 5 روپے فی یونٹ ریلیف بھی دیا جس کے لیے قومی خزانے پر 126 ارب روپے کا بوجھ پڑا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بجلی مہنگی کیوں ہوئی۔ دراصل پاکستان میں بجلی کے مہنگا ہونے کی وجوہات میں عالمی منڈی میں ایندھن کے مہنگا ہونے کے علاوہ ایندھن کی سپلائی چین میں مشکلات اور روپے کی قدر میں کمی بھی شامل ہے۔ نیپرا کی اسٹیٹ آف انڈسٹری کی رپورٹ برائے سال 2022ء میں یہ انکشاف ہوا کہ مہنگی بجلی ہونے کی وجوہات میں ایندھن کی قلت بھی شامل تھی۔
پاکستان میں گیس کے نئے ذخائر کی تلاش نہ ہونے کی وجہ سے قدرتی گیس کے ذخائر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی ہورہی ہے۔ قدرتی گیس کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے قطر سے گیس کی خریداری کا معاہدہ کیا گیا تاکہ بجلی کی تیاری کے لیے فرنس آئل کے بجائے آر ایل این جی کو استعمال کیا جاسکے کیونکہ آر ایل این جی گیس فرنس آئل کے مقابلے میں نہایت سستی اور زیادہ بہتر کارکردگی کا ایندھن ہے۔ پاکستان میں آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی مجموعی پیداواری گنجائش 5 ہزار 47 میگاواٹ ہے۔
اگر عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جولائی 2021ء میں آر ایل این جی کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت کی فوری مارکیٹ میں قیمت 12.17 ڈالر تھی جو جون 2022ء میں بڑھ کر 19.07 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی۔ اس طرح گیس کی قیمت میں 6 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کا اضافہ ہوا۔ ایک موقع پر تو آر ایل این جی کی قیمت 39 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پہنچ گئی تھی جس کے سبب طویل مدتی معاہدے کے تحت آر ایل این جی سپلائرز نے گیس فراہمی کے بجائے جرمانہ ادا کرنے کو ترجیح دی۔
آر ایل این جی کے مہنگا ہونے کی وجہ سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت جو جولائی 2021ء میں اوسطاً 13.03 روپے فی یونٹ تھی وہ جولائی 2022ء میں بڑھ کر 29.69 روپے ہوگئی اس طرح فی یونٹ لاگت میں 16.65 روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔
بجلی کی پیداوار کے حوالے سے کوئلے کو بھی ایک سستا ایندھن تصور کیا جاتا تھا اور پاکستان میں سی پیک کے تحت متعدد پاور پلانٹس لگائے گئے جس کے لیے کوئلہ جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا سے منگوایا جاتا ہے۔
عالمی منڈی میں ایک سال کے اندر کوئلے کی فی ٹن قیمت 177 ڈالر سے بڑھ کر 407 ڈالر ہوگئی جس کے سبب کوئلے سے بنائی جانے والی بجلی کی لاگت 10.17 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 29.12 روپے ہوگئی یوں 18.95 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی ہوئی۔ دوسری جانب پاکستان میں مقامی کوئلہ جو تھر سے نکالا جارہا ہے اس سے بنائی گئی بجلی کی قیمت 7 سے 9 روپے فی یونٹ رہی۔
عالمی منڈی میں کوئلے کی قیمت تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے افغانستان سے کوئلے کی درآمد کی اجازت دی گئی مگر افغانستان کا کوئلہ پاکستان کی طلب پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اب یہ بات کی جارہی ہے کہ درآمدی کوئلے کے بجائے پاکستان میں دستیاب تھر کے کوئلے کو سپلائی چین میں شامل کیا جائے تاکہ سستے کوئلے سے سستی بجلی بنائی جاسکے اور قیمتی زرِمبادلہ بھی بچایا جائے۔
اس حوالے سے پرائیویٹ پاور اینڈ انفرااسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ درآمدی کوئلے میں مقامی تھر کول کی مکسنگ سے پاور پلانٹس کو چلایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے پلانٹس میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تھر کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹس کو جلد کمیشن کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے تھر سے ایک ریلوے لائن ڈالنے کا منصوبہ بھی ہے، جو ایم ایل ون سے منسلک ہو۔
فرنس آئل کے پلانٹس زیادہ تر 1990ء کی دہائی میں لگائے گئے تھے اور ان کی کارکردگی یا ایفیشنسی بھی بہتر نہیں ہے جس وجہ سے ان کو اکنامک میریٹ آرڈر میں سب سے آخر میں چلایا جاتا ہے۔ مگر چونکہ آر ایل این جی گیس کے مہنگا ہونے اور فراہمی بند ہونے کی وجہ سے ایندھن دستیاب نہیں تھا اور پن بجلی کے یونٹس بھی بند تھے اس لیے بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے فرنس آئل پاور پلانٹ چلانا پڑے۔
آر ایل این جی اور کوئلے کی طرح عالمی منڈی میں فرنس آئل کی قیمت میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوا۔ جولائی 2021ء میں فرنس آئل کی فی ٹن قیمت 80 ہزار 963 روپے سے بڑھ کر جون 2022ء میں ایک لاکھ 76 ہزار 933 روپے فی ٹن ہوگئی۔ اس طرح فرنس آئل کی قیمت میں 95 ہزار 970 روپے کا نمایاں اضافہ ہوا۔ فرنس آئل مہنگا ہونے سے جولائی 2021ء میں فی یونٹ پیداواری لاگت 19.836 روپے سے بڑھ کر 39.98 روپے ہوگئی اس طرح فی یونٹ پیداواری لاگت میں 20.15 روپے کا نمایاں اضافہ ہوا۔
نیپرا کا کہنا ہے کہ سستی بجلی کے حوالے سے تھرمل اور متبادل توانائی کے منصوبوں میں غیر معمولی تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے بھی عوام کو مہنگی بجلی فراہم کرنا پڑی۔ بگاس گنے کی کریشنگ کے بعد بچ جانے والے پھوک کو جلا کر بجلی بنائی جاتی ہے۔ یہ ایک ماحول دوست اور سستا ایندھن ہے۔
نیپرا نے بگاس سے بجلی بنانے کے لیے کُل 940 میگا واٹ کے 27 پاور پلانٹس لگانے کے لائسنس جاری کیے ہیں مگر اس میں سے صرف 260 میگاواٹ کے 8 پاور پلانٹس مکمل ہوئے ہیں اور ان سے سسٹم میں 13 روپے فی یونٹ بجلی دستیاب ہوئی ہے۔ بگاس سے بجلی کی پیداوار سے نہ صرف اربوں ڈالر مالیت کے ایندھن کی درآمد کم ہوگی بلکہ بگاس پلانٹس کی تیاری میں مقامی آلات کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے جو مقامی معیشت کو ترقی دے سکتا ہے۔
اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کے غیر پیشہ ورانہ اور غیر خوش آمدیدی رویے کی وجہ سے 616 میگا واٹ کے شمسی توانائی کے 12 منصوبوں پر بھی کام شروع نہیں ہوسکا۔ شمسی توانائی سے سستی ترین بجلی کے حصول کے منصوبوں کو بھی مکمل نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔
نیپرا نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں صرف ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے بجلی مہنگی نہیں ہوئی بلکہ پاور پلانٹ کو بروقت ادائیگیاں نہ ہونے، ایندھن کی وقت پر عدم خریداری اور سپلائی چین کے مسائل کی وجہ سے بھی پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سستے پاور پلانٹس جن کی ایفیشنسی بھی دیگر پاور پلانٹس سے بہتر ہے انہیں ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہیں چلایا جاسکا۔ اس حوالے سے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے سسٹم پر کیا نقصانات ہورہے ہیں اس کا جائزہ آئندہ کے بلاگ میں لیا جائے گا۔
یہ بات تو طے ہے کہ جدید طرزِ زندگی کے لیے بجلی کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ انسان نے کاروبارِ زندگی کو چلانے کے لیے جو بھی جدید ذرائع بنائے ہیں وہ سب کے سب توانائی پر کام کرتے ہیں۔ بجلی کے بغیر پاکستان کو ترقی نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں بعض مفادات کی وجہ سے متبادل توانائی منصوبوں کی منظوری دیے جانے کے باوجود ان کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔
اس وقت 1500 میگا واٹ سے زائد کے منظور شدہ منصوبے زیرِ التوا ہیں۔ اس پر پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا اور ان رکاوٹوں کو دُور کرنا ہوگا تاکہ صارفین کو سستی بجلی مل سکے۔ اس کے علاوہ بجلی کی پیداوار کے لیے مقامی وسائل پر انحصار کو بڑھانا ہوگا تاکہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچا جاسکے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔