پاکستان

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، حکومت کی یقین دہانی

حکومت کی جانب سے چند انتہائی مشکل فیصلوں اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد صورتحال کافی بہتر ہوچکی ہے، عائشہ غوث پاشا

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے دعووں اور 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے پر آئی ایم ایف کے ساتھ باضابطہ مذاکرات میں تاخیر کے پیش نظر وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات عائشہ غوث پاشا نے قوم کو یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں عائشہ غوث پاشا نے یہ یقین دہانی اس وقت کروائی جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن اسمبلی مسرت رفیق مہیسر نے ان سے براہ راست سوال کیا کہ کیا واقعی پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ ایسا کوئی خدشہ نہیں ہے، ہاں جب ہم نے اپریل میں حکومت سنبھالی تھی تو ہم ضرور پریشان تھے کیونکہ اس وقت آئی ایم ایف پروگرام معطل تھا اور بیرونی امداد حاصل کرنے کے راستے بھی بند تھے۔

تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی جانب سے چند انتہائی مشکل فیصلوں اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔

عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کی وجہ سے پاکستان اپنی بیرونی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دیگر دوطرفہ اور کثیر جہتی ایجنسیوں اور یہاں تک کہ تجارتی مارکیٹ سے بھی قرضہ لینے سے قاصر تھا، تاہم آئی ایم ایف پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں کامیاب جائزوں کے بعد پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی فوری خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے برعکس ملک کی برآمدات میں بہتری آئی ہے، غیر ملکی ترسیلات آ رہی ہیں اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی بہتری آرہی ہے۔

عائشہ غوث پاشا نے مزید کہا کہ پاکستان اب آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق درست ٹریک پر ہے اور اس پروگرام کے لیے پُرعزم ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں عائشہ غوث پاشا نے ایوان کو بتایا کہ اس وقت پاکستان کی 50 فیصد معیشت کا تخمینہ غیر دستاویزی ہے، تاہم مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت کا حجم 35.6 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا ورلڈ بینک کے مطابق غیر دستاویزی معیشت ملک کی جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) کا ایک تہائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ باضابطہ دستاویزی معیشت کے حجم کو بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، پائیدار ٹیکس پالیسی اور اس کا مؤثر نفاذ اس مقصد کے حصول میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت ٹیکس دہندگان کی سہولیات کے لیے ٹیکس وصولی کے نظام میں اصلاحات لانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی شہری میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کرے، افسوس ہےکہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب صرف 9 فیصد ہے جو کہ دنیا میں انتہائی کم سطح سمجھی جاتی ہے۔

دریں اثنا پیپلزپارٹی کی ایک اور رکن اسمبلی شمیم آرا پنہور کے ایک سوال کے تحریری جواب میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ 4 نومبر کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کی کُل مالیت 13 ارب 72 کروڑ ڈالر تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب 96 کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 76 کروڑ ڈالر ہیں۔

ملک کے غیر ملکی قرضوں سے متعلق سوالات کے جواب میں وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹٰی آئی) کی سابقہ حکومت نے اگست 2018 سے اپریل 2022 کے درمیان 47 ارب 11 کروڑ ڈالر کے قرضے لیے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے 11 اپریل 2022 سے 30 ستمبر 2022 تک حاصل کیے گئے غیر ملکی قرضے اور امداد 5 ارب 67 کروڑ ڈالر ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر برائے نجکاری عابد حسین بھیو نے ایوان کو بتایا کہ سروسز انٹرنیشنل ہوٹل لاہور، فیصل آباد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ملکیتی جائیداد، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس ٹیکسلا، پاکستان اسٹیل ملز کراچی، نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی نجکاری کے فعال منصوبوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان ری انشورنس کمپنی، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ اور ریپبلک موٹرز کی لاہور میں زمین سمیت فیصل آباد، اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، پشاور، حیدر آباد، کوئٹہ اور سکھر کی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری بھی زیِر غور ہے۔

اگلے ہفتے تک نئے آرمی چیف کا نام سامنے آجائے گا، خواجہ آصف

دنیا کی نصف آبادی منہ کی بیماریوں میں مبتلا، عالمی ادارہ صحت

بھارت: نجی طور پر تیار کردہ راکٹ کا کامیاب تجربہ