توہین عدالت کیس: معاملے پر سوچ سمجھ کر کارروائی کرنی ہوگی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے انہیں جواب الجواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
گزشتہ روز وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں ایک اور درخواست دائر کی تھی جس میں 25 مئی کو لانگ مارچ کے دوران عمران خان اور پارٹی قیادت کے متعدد ٹوئٹ اور اسکرین شاٹ پیش کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف ’جہاد‘ کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔
یاد رہے کہ 16 نومبر کو توہین عدالت کیس میں عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنا تفصیلی جواب جمع کروایا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی گئی، یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مجھے 25 مئی کی شام کو عدالتی حکم کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔
عمران خان نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ 25 مارچ کو آزادی مارچ کے واقعات کے حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، اسلام آباد پولیس سمت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے رپورٹ حقائق کے خلاف اور یکطرفہ ہیں۔
آج عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی درخواست پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں عمران خان کے وکیل عدالت میں درست جواب دیں گے، سپریم کورٹ اپنا یہ دائرہ اختیار خیال سے استعمال کرتی ہے، ہم کوئی بھی آرڈر کسی بھی توقع پر جاری نہیں کرسکتے۔
اس دوران سرکاری وکیل نے کہا کہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جو عدالت میں پیش نہیں کی جاسکیں، عدالت نے ایک کمیٹی بنائی جس کے اراکین کے نام عدالت میں پیش کیے گئے، جسٹس اعجازلاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس وقت فریقین سے اس گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کے لیے نام مانگے تھے، پہلا جو احتجاج تھا اس پر وقت ملنے کے بعد عدالت میں نام دیے گئے تھے، اس وقت جیمرز موجود تھے کی بات کی گئی تھی۔
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ ہم اس بارے میں عدالت میں سی ڈی آر پیش کر سکتے ہیں،اس وقت سوشل میڈیا پر تمام تر معلومات آگئی تھیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس وقت جو آرڈر دیا تھا وہ آدھے گھنٹے میں سامنے آگیا تھا، اس وقت عمران خان کے وکیل کو سنتے ہیں، اخباروں میں جو آرٹیکلز لکھے گئے اس پر ہم نہیں جاتے۔
سرکاری وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا کنٹینر پر موبائل کام کر رہے تھے یا نہیں، میرا جواب یہ ہے کہ اس وقت کنٹینرز کے پاس موبائل ٹاورز کام کر رہے تھے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں ہمیں سوچ سمجھ کر آگے کارروائی لے کر جانی ہوگی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے درخواست جمع کرائی جس میں رابطوں کی تفصیل دی گئی، گزشتہ رات جواب جمع کرایا گیا جس پر مخالف فریق کو جواب دینے کے لیے وقت درکار ہے، فریق مخالف کے وکیل اپنا جواب جمع کرائیں، جو یو ایس بی پیش کی گئی وہ بھی فریق مخالف کو فراہم کی جائے۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کی جاتی ہے، اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریلی والوں کو تو پابند کریں کہ وہ قواعد و ضوابط کی پابندی کریں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہتوہین عدالت قانون میں دائرہ اختیار میں کوئی ایسا حکم جاری نہیں کر سکتے جو انتظامی ہو، اس معاملے میں عمران خان کے وکیل کا جواب آنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اختیار کو محتاط ہوکر استعمال کرتی ہے، اگر ہمارے احکامات کی توہین ہو تو پھر کارروائی کرتے ہیں، عمران خان نے تفصیلی جواب جمع کرایا ہے، امید ہے عمران خان نے درست اور حقائق پر مبنی جواب جمع کرایا ہوگا، ہم فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کر رہے، سرکاری وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ عمران خان کے جواب پر وزارت داخلہ نے جواب داخل کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
پس منظر
واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔
25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ’آزادی مارچ‘ کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔
توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔
عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔
حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔