سیلاب کے 3 ماہ بعد بھی متاثرین سے متعلق ’ڈیٹا کی عدم دستیابی پر اظہار افسوس‘
ملکی تاریخ کے بد ترین سیلاب کے بعد 3 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وفاقی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے پاس متاثرہ افراد کی تعداد، امدادی اشیا اور بحالی کی ضروریات سے متعلق اعداد و شمار نہ ہونے پر قومی اسمبلی پینل نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے سیلاب زدگان کے حوالے سے درست اعداد و شمار کی عدم دستیابی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار بھی کیا گیا۔
اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی عدم موجودگی میں تمام حکومتی اتحادی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی نے کرنسی کی قدر میں کمی اور دیگر معاشی مشکلات پر قابو پانے میں ناکامی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سیلاب کے بعد امداد اور بحالی کی سرگرمیوں پر گفتگو کرتے ہوئے سندھ سے تعلق رکھنے والی پیپلز پارٹی کی رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، خیراتی، فلاحی اداروں اور مسلح افواج کی جانب سے بہت زیادہ امدادی سامان فراہم کیا جا رہا تھا لیکن یہ فراہمی بغیر کسی مربوط نظام کے غیر منظم انداز میں کی گئی، اس دوران یہ نہیں دیکھا گیا کہ کہاں، کس کو کتنی امداد کی ضرورت ہے۔
اس نے کہا کہ کچھ لوگوں کو کئی کئی بار خیمے، خوراک اور دیگر امدادی اشیا مل گئیں جب کہ بہت سے لوگ تاحال امداد کے منتظر ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں کو ریلیف اور بحالی کی کوششوں کو مربوط کرنا چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن اور سابق وفاقی وزیر برجیس طاہر نے کہا کہ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے جس صورتحال کی نشان دہی کی اس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جانا چاہیے اور معلوم کرنا چاہیے کہ مدادی مشینری کس حد تک متاثرہ افراد تک پہنچنے میں کامیاب رہی، انہوں نے کہا کہ سندھ میں اب بھی زمین کا بڑا حصہ زیر آب ہے جہاں لوگ نکاسی کے لیے واٹر پمپس کی تلاش میں ہیں۔
کمیٹی کے چیئرمین قیصر شیخ نے اتفاق کیا اور کہا کہ جب انہوں نے سندھ کا دورہ کیا تو وہاں انتہائی افسوسناک انسانی صورتحال دیھکی۔
ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ این ڈی ایم اے نے بتایا کہ خیرپور کے علاقے میں ایک لاکھ 50 ہزار لوگ متاثر ہوئے لیکن پھر وہاں صرف 9 ہزار کمبل اور خیمے فراہم کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں زمینی حقائق اور صورتحال بہت خراب تھی، اگر کہیں 500 خیمے فراہم کیے جارہے تھے تو وہاں 5 ہزار لوگ انہیں حاصل کرنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ بوائی کے موسم کے پیش نظر حکومت کی جانب سے زرعی امداد کو منظم طریقے سے جاری کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ نے پینل کو یقین دلایا کہزیڈ ٹی بی ایل نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کسانوں کے قرضوں پر سود معاف کر دیا ہے جب کہ حکومت اور کمرشل بینک بھی زرعی قرضوں پر سود کی لاگت 50،50 فیصد کی بنیاد پر شیئر کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، انہوں نے کہا کہ حکومت مائیکرو فنانس بینکوں کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے تاکہ بے زمین کاشتکار خاندانوں کے لیے اسی طرح کی اسکیم متعارف کرائی جا سکے۔
پینل کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے ان 8 بینکوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی جنہوں نے شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ سے بے پناہ منافع کمایا۔