وزیر آباد فائرنگ: حکومتِ پنجاب کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی وفاق نے مسترد کردی
پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کے معاملے پر پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پر وفاقی حکومت نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ شفاف تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی میں خفیہ ادارے کا نمائندہ شامل کیا جائے۔
وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کو مراسلہ ارسال کردیا جس میں کہا گیا کہ جےآئی ٹی میں شامل پولیس افسرغلام محمود ڈوگر نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے احکامات کی خلاف ورزی کی تھی اس لیے وفاقی حکومت انہیں جے آئی ٹی میں قبول نہیں کرےگی۔
وزارت داخلہ نے پنجاب حکومت کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی میں قانونی خامیوں پر اعتراضات اٹھائے۔
اسی دوران وزیرآباد کی سیشن عدالت نے پنجاب حکومت کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کا بیان ریکارڈ کیا جائے، عدالت نے کہا کہ نئی معلومات کی بنیاد پر الگ ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالت کے سیشن جج قاسم علی بھٹی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد تفتیشی افسر پر لازم ہے کہ وہ ایف آئی آر میں وضاحتی بیان سے قطع نظر واقعہ کی شفاف تحقیقات کرے۔
جج نے وضاحت کی کہ تفتیشی افسر کو واقعہ سے متعلق موصول ہونے والی نئی معلومات پر ایک اور نئی ایف آئی آر درج نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کی ضرورت ہے، عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی لاہور کے سیکریٹری جنرل زبیر خان نیازی کی درخواست نمٹا دی۔
دوسری جانب پنجاب حکومت کو بھیجے گئے مراسلے میں وزارت داخلہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 19 (1) کے تحت جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے خفیہ ایجنسی سمیت کسی بھی دوسرے تحقیقاتی ایجنسی کے افسر کا شامل ہونا لازمی ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق جے آئی ٹی میں کُل 5 ارکان ہیں اور تمام ارکان کا تعلق پنجاب پولیس سے ہے،جے آئی ٹی میں کسی اور ایجنسی اور خفیہ ادارے کا نمائندہ شامل نہیں ہے جوانسداد دہشت کردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کا سربراہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو بنایا ان کو اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن نے 5 نومبر کو معطل کر دیا تھا اور عارضی طورپر فیڈرل سروس ٹربیونل سے ریلیف ملا، ایسے آفیسر کو سربراہ مقرر کرنے سے شفاف تحقیق ممکن نہیں ہوں گیں۔
مراسلے میں کہا گیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی مذکورہ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس میں خفیہ ادارے سمیت کسی اور تحقیقاتی ایجنسی کے نمائندہ کو شامل نہیں کیا گیا اور ایک متنازع پولیس افسر کو جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا ہے، اس پولیس افسر کے خلاف تادیبی کارروائی جاری ہے اور انہیں عارضی طور پر بحال کیا گیا ہے، ایسے آفیسر کو سربراہ مقرر کرنے سے شفاف تحقیق ممکن نہیں ہوں گیں۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ 6 روز کے اندر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی شفاف تحقیقات کی عکاسی نہیں کرتی۔
وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کو جے آئی ٹی میں آئی ایس آی اورانٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے شامل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا ہوگا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 19 (1) کے تحت تحقیقات کو شفاف بنانے کے لیے پنجاب حکومت اس جے آئی ٹی میں وفاقی ایجنسیز کے پیشہ ورانہ اور تجربہ کار افسران کو بھی شامل کرے۔
جے آئی ٹی نے وفاقی حکومت کے اعتراضات نظرانداز کردیے
دوسری جانب جے آئی ٹی کے سربراہ لاہورکے سی سی پی او غلام محمود ڈوگر نے وفاقی حکومت کے تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے پہلا اجلاس 16 نومبر کو بلایا تھا، سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں دیگر ارکان بھی شامل تھے جس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیرآباد میں جائے وقوع کا دورہ کیا جائے گا اور گرفتار مشتبہ شخص کو تحویل میں لے کرعینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے۔
ان کا کہناتھا کہ جے آئی ٹی کے اجلاس میں سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کے پیچھے اصل مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے دیگر نقطہ نظر پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، ذرائع کا کہنا تھا کہ واقعہ میں زخمی ہونے والے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت دیگر افراد کی میڈیکل رپورٹس کا اگلے اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا