امریکی وسط مدتی انتخابات میں ٹرمپ کو شکست کیوں ہوئی؟
تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو امریکا کے وسط مدتی انتخابات کے بیلیٹ پیپر پر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام موجود نہیں تھا۔ اور ویسے بھی یہ صدارتی انتخابات نہیں تھے بلکہ 2 ایوانوں یعنی ایوانِ نمائندگان اور امریکی سینیٹ کے انتخابات تھے۔
مگر اس کے باوجود ری پبلکن امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ٹرمپ ٹیسٹ سے گزرنا تھا اور اکثر صورتوں میں ٹرمپ صرف ان امیدواروں کی تائید کررہے تھے جو ان کی عظمت اور بڑائی کو تسلیم کرنے پر راضی تھے اور ٹرمپ کے اس دعوے کی بھی حمایت کرتے تھے کہ 2020ء کا صدارتی انتخاب ڈیموکریٹس نے چوری کیا ہے۔
بدقسمتی سے ری پبلکن جماعت کے مستقبل کے لیے ان امیدواروں کو ایسا کرنے کی سزا دی جائے گی جو ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جیسے جیسے گزشتہ منگل انتخابات کے ابتدائی نتائج آنا شروع ہوئے تو یہ واضح ہوتا گیا کہ پہلے سے ہی اپنی فتح کا اعلان کرنے والے ری پبلکنز غلط تھے۔
بہرحال ان وسط مدتی انتخابات سے قبل ہونے والی تمام پیشگوئیوں میں ری پبلکنز کو فاتح قرار دیا جارہا تھا۔ کچھ ری پبلکنز کے مطابق تو اس کا مطلب کانگریس کے ساتھ ساتھ سینیٹ پر بھی تقریباً مکمل کنٹرول حاصل ہونا تھا۔
کانگریس کے لیے لگائے جانے والے تخمینے کے مطابق اکثریت کے لیے درکار 218 نشستوں سے 20 یا 30 نشستیں ری پبلکنز کے پاس جانے کا کہا جارہا تھا۔ اسی طرح 100 نشستوں والی سینیٹ کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہاں نشستوں کی تقسیم 46 اور 54 کی ہوجائے گی اور اکثریت ری پبلکنز کے پاس ہوگی۔
گزشتہ انتخابات میں صدارت، کانگریس اور سینیٹ گنوانے کے بعد ری پبلکنز کا خیال تھا کہ وہ صرف جیت نہیں رہے بلکہ بڑی جیت ان کا انتظار کررہی ہے۔ ان کی یہ امید جن سروے کے نتائج پر تھیں وہ زیادہ تر کنزرویٹو اداروں نے کیے تھے۔ ان سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی دہائیوں بعد نیویارک اور واشنگٹن جیسی ڈیموکریٹک ریاستوں میں بھی سخت مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
اگر 2016ء کے صدارتی انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت شاید ہی کسی پیشگوئی میں ٹرمپ کی جیت بتائی گئی تھی لیکن اس وقت ٹرمپ کے پوشیدہ ووٹرز نے ان کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ وہ ووٹر تھے جو کبھی اس بات کا اقرار تو نہیں کریں گے کہ مگر اب بھی ہر حال میں وہ ٹرمپ کو ہی ووٹ دیں گے۔
بہرحال انتخابات سے پہلے جتنی بھی پیشگوئیاں کی گئیں ان کا نتیجہ اب سامنے آچکا ہے۔ ڈیموکریٹس نے نہ صرف سینیٹ کا کنٹرول اپنے پاس رکھا بلکہ وہ ایوانِ نمائندگان میں بھی ری پبلکنز کی جیت کو معمولی فرق تک محدود رکھنے میں کامیاب رہے ہے۔
اگرچہ فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس نے اپنے ڈیموکریٹک حریف پر ایک بڑی کامیابی حاصل کی لیکن باقی امیدوار اس میں ناکام رہے۔ وہ لوگ جو طویل عرصے اور ٹرمپ دور سے پہلے کے چند ری پبلکنز میں شامل نہیں تھے وہ بھی پارٹی میں رہنے میں کامیاب ہوگئے اگرچہ میک امریکا گریٹ اگین کے حامیوں کی طرف سے ایسا کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا تھا۔
جارجیا کے لوگوں نے ایک مرتبہ پھر ری پبلکن امیدوار برائن کیمپ کو گورنر منتخب کرلیا ہے۔ اگر سال 2020ء کی بات کریں تو تب جارجیا کے نتائج کی بنیاد پر ہی ڈیموکریٹ نے سینیٹ میں اکثریت حاصل کی تھی۔ کیمپ وہ ری پبلکن فرد تھے جنہیں 2020ء میں ٹرمپ نے ’میل اِن‘ ووٹوں کو مسترد کرنے کے لیے دباؤ میں لینے کی کوشش کی تھی کیونکہ ان میں اکثریت ڈیموکریٹس کو ووٹ ڈالے گئے تھے، تاہم کیمپ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس لیے ووٹر غصے میں تھے لہٰذا جہاں انہوں نے دیگر انتخابات میں ڈیموکریٹس کو ووٹ دیے وہیں گورنر کے لیے ری پبلکن امیداور کیمپ کو ووٹ دے دیا۔
یہ رجحان ’اسپلٹ ٹکٹ ووٹنگ‘ کہلاتا ہے اور امریکی انتخابات میں نسبتاً کم استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ووٹر کو اپنے بیلٹ پیپر کو حرفاً حرفاً پڑھنا پڑتا ہے اور ڈیموکریٹ یا ری پبلکن امیدوار پر نشان لگانا ہوتا ہے، دوسری صورت میں تو وہ صرف ری پبلکن یا ڈیموکریٹ پارٹی کے خانے پر نشان لگا دیتے تھے۔
ہفتے کی رات تک سی این این نے ریاست نیواڈا میں ڈیموکریٹ سینیٹ امیدوار کیتھرین کورٹیز مستو کی جیت کی پیشگوئی کردی تھی۔ ان کی جیت سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی برتری برقرار رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ری پبلکن اس کو کنٹرول نہیں کریں گے اور اس لیے وہ قدامت پسند ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہیں گے۔ ان کے ایجنڈے میں اسقاط حمل پر وفاقی پابندی اور جنگ زدہ یوکرین کے لیے تمام امداد کی بندش جیسے اقدامات شامل تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اپنی کم مقبولیت کے باوجود وہ کام کرچکے ہیں جو 40 سالوں سے امریکا میں نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنی پارٹی کو سینیٹ پر کنٹرول جاری رکھنے کی اجازت دینے میں کامیاب رہے اور کانگریس کی نشستوں میں فرق کو پہلے سے کم رکھا۔
اس ہفتے کے آغاز سے ہی طرفین غیر متوقع انتخابی نتائج کے لیے تیار تھے۔ جی20 سربراہی اجلاس میں انڈونیشیا جاتے ہوئے صدر بائیڈن کو اپنی جیت کا احساس ہوا تو انہوں نے فوراً ہی صحافیوں کو بتایا کہ وہ انتخابات کے نتائج سے خوش ہیں۔
یہ بات واضح تھی کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر خفا تھے۔ ان کی ایک بیٹی کی شادی گزشتہ ہفتے ہوئی تھی اور ٹرمپ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس انتخابی نتائج سے وہ بری الذمہ ہیں۔
مزے کی بات یہ کہ سابق صدر ٹرمپ (جو اب بھی اس بات سے انکاری ہیں کہ وہ صدارتی انتخاب ہار چکے ہیں) نے اس انتخاب کے سب سے بڑے ری پبلکن فاتح یعنی فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس کا مذاق بھی اڑایا۔ شاید ایسا اس لیے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ انتخاب لڑتے ہیں تو ممکنہ طور پر رون ڈی سینٹیس ہی انہیں چیلنج کریں گے۔
دنیا اس وجہ سے امریکی انتخابات پر نظر رکھتی ہے کیونکہ یہ دنیا میں امریکا کے عزائم اور طرزِ عمل کا تعین کرتے ہیں۔ اگر ’میک امریکا گریٹ اگین‘ والے ری پبلکنز جیت جاتے تو یورپ اور خاص طور پر یوکرین اس کے فوری اور خطرناک اثرات کا نشانہ بنتے۔
ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کا تنہائی پسندانہ مؤقف ایک بار پھر دیگر عالمی معاملات اور خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی پر امریکی عمل دخل کو کم کرے گا۔ امریکا میں اگلے 2 سالوں میں ممکنہ طور پر ایک تعطل دیکھنے کو ملے گا اور کسی بھی فریق کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ خارجہ اور ملکی پالیسی میں بڑے اقدام کرسکے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک طویل عرصے تک ٹرمپ اور ان کی اپیل ناقابلِ شکست تھی۔ لیکن اب امریکی ووٹروں نے دوسری طرف رخ کرلیا ہے۔ واشنگٹن کے قدامت پسند حلقوں میں اسی سوال پر سوچ بچار ہورہا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت کا جواز کیسے پیش کیا جائے۔ اس سوال کا جواب جو بھی ہو بہرحال امریکا کے ووٹروں نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھنا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ مضمون 16 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔