عالمی کپ 2022ء کا میزبان قطر مسلسل تنقید کی زد میں کیوں ہے؟
الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے اور فٹبال کا سب سے بڑا ایونٹ شروع ہونے میں اب بس 2 دن باقی رہ گئے ہیں۔ لیکن اس بار عالمی کپ کچھ مختلف ہوگا۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ اس بار میزبان کوئی یورپی یا امریکی ملک نہیں بلکہ عرب ملک قطر ہے، جو ٹورنامنٹ سے قبل ہی شدید تنقید کی زد میں ہے۔
2010ء میں قطر کی نامزدگی نے عالمی کپ سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا جو فٹبال مبصرین کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ کیا واقعی یہ عالمی کپ مختلف ہے؟ لیکن کن تناظر میں؟ آئیے تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں۔
قطر کی نامزدگی
قطر کا عالمی کپ کی میزبانی کے لیے اپنا نام پیش کرنے کا اصل مقصد عرب ممالک اور مغرب کے درمیان رابطہ قائم کرنا تھا۔ مگر ممالک نے قطر کے اس ارادے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ قطر مغربی دنیا کے لیے ایسا ملک نہیں ہے جہاں عالمی کپ کے انعقاد سے اس ملک میں فٹبال کو پزیرائی ملے گی (جو جنوبی افریقہ میں عالمی کپ کروانے کا مقصد تھا)۔ حتیٰ کہ چند ناقدین نے یہ تک کہہ دیا کہ قطر کے لوگوں کے لیے عالمی کپ کمائی کا ذریعہ تو ہوسکتا لیکن یہاں فٹبال کے کھیل کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ساتھ ہی فیفا پر زور دیا جانے لگا کہ صرف اپنے منافع کے لیے انہیں قطر کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔
جس سال قطر نے اپنا نام دیا اسی سال دوحہ میں ارجنٹینا اور برازیل کی ٹیموں کا دوستانہ میچ بھی کروایا گیا تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ اگر قطر کو عالمی کپ کی میزبانی کا موقع دیا جائے تو وہ بہترین ٹورنامنٹ اپنے ملک میں کروا سکتا ہے۔
لہٰذا تمام تر مخالفت کے باوجود فیفا نے دسمبر 2010ء میں قطر کو 2022ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی کی ذمہ داری سونپ دی۔ ناقدین کو فیفا نے یہ وضاحت دی کہ جب 2006ء کے ایشین گیمز کی میزبانی قطر کرسکتا ہے تو تمام انتظامات اور تیاری کے بعد قطر عالمی کپ کی بھی میزبانی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
بعدازاں، مئی 2011ء میں فیفا کے 2 سینیئر عہدیداران پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے قطر سے رشوت لی تھی جس کی مکمل انکوائری کی گئی لیکن کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔
موسمی صورتحال
ایک سب سے اہم عنصر جو قطر کو دیگر عالمی کپ سے مختلف بنا رہا ہے، وہ ہے موسم۔ یہ وہ پہلا موقع ہے جب فیفا ورلڈکپ کا انعقاد موسمِ گرما کے بجائے سرما میں ہو رہا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ جی آپ نے درست اندازہ لگایا، قطر کی میزبانی کی وجہ سے موسم پر سمجھوتا کیا گیا ہے۔
موسمِ گرما میں قطر کا درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر ہی رہتا ہے۔ اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ٹھنڈے ممالک سے قطر آنے والی ٹیموں پر موسم کس طرح اثرانداز ہوگا۔ موسمِ گرما میں یہاں ہوا میں نمی کا تناسب بھی کم رہتا ہے جو فٹبال کھیلنے کے لیے بہترین موسم تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسے میں چاہ کر بھی کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی نہیں دکھا پاتے اور دوپہر کے میچ کھیلنا تو ناممکن ہی ہوجاتا ہے۔
نومبر دسمبر کے مہینوں میں قطر کا درجہ حرارت 21 سے 26 ڈگری کے درمیان رہتا ہے جو قابلِ برداشت ہے ساتھ ہی عالمی معیارات کے اسٹیڈیم بنانے والے قطر نے ان میں ایئرکنڈیشن بھی نصب کیے ہیں تاکہ کھلاڑیوں اور شائقین کو موافق ماحول فراہم کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ اسٹیڈیم میں عالمی معیار کے کولنگ سسٹم بھی نصب ہیں جو سولر توانائی سے چلیں گے۔ لیکن ایک اور منفی عنصر یہ بھی ہوگا کہ قطر میں دسمبر میں ویسے ہی نمی کا تناسب اوپر رہتا ہے اور پھر ایئرکنڈیشن کے استعمال سے نمی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
سخت قوانین و ضوابط
مغرب اور دنیا کے دیگر حصوں سے آنے والے شائقین کے لیے قطر کا موسم ویسے ہی مشکل تھا، اور پھر قطر کے سخت قوانین نے شائقین کو مزید خوفزدہ کردیا ہے۔ یہ قوانین شاید ہم جیسے اسلامی ممالک کو تو سخت نہ لگیں مگر یورپی اور امریکی آزاد خیال ممالک کے لوگوں کے لیے ان پر عمل کرنا نہایت مشکل ٹاسک ہوگا۔
قطر میں اسلامی قوانین رائج ہیں، مکمل تو نہیں لیکن بنیادی اصول جیسے شراب نوشی، جوئے، ہم جنس پرستی اور کپڑوں کے حوالے سے سخت قوانین ہیں۔ اور پھر ایک دفعہ جو اس ملک میں آگیا اس پر یہیں کے قانون کا اطلاق ہوگا پھر چاہے وہ فٹبال دیکھنے ہی کیوں نہ آیا ہو، اسے بھی خلاف ورزی پر سزا ملے گی۔
خود ہی دیکھ لیں۔ مثال کے طور پر قطر میں شراب پینے یا فراہمی کا ذریعہ بننے پر 3 سے 5 سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا ہے۔ عوامی مقامات پر غیر اخلاقی حرکات یا اشارے بازی میں بھی زیادہ سے زیادہ 3 سال کی قید ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں، قطر آنے والے شائقین کے لیے کپڑوں سے متعلق قوانین بھی مشکل ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوا کھیلنا بھی قطر میں سخت ممنوع ہے، اگر کوئی غیر ملکی اسے کھیلے گا تو اسے 3 سے 6 ماہ کی قید اور تقریباً ایک ہزار ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
اب اس بات کا تصور کرنا مشکل تو نہیں کہ آزاد خیال ممالک سے آنے والے افراد کے لیے ان سب سے اجتناب کرنا کتنا مشکل ہوگا، جہاں یہ سب چیزیں عام زندگی کا حصہ ہیں۔
اسی لیے قطر سے درخواست کی گئی کہ وہ غیر ملکی شائقین پر ہلکا ہاتھ رکھے لیکن قطر نے انکار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ شائقین جس ملک میں آرہے ہیں وہاں کے قوانین کا اطلاق ان پر ضرور ہوگا۔ یہ ایک اور عنصر ہے جس پر سب کو عالمی کپ جیسا ٹورنامنٹ قطر میں کروانے پر تشویش ہوئی۔
کوریج پر پابندی
فٹبال کی کوریج کے لیے قطر نے پوری دنیا میں موجود کئی میڈیا ہاؤسز کو کوریج کی اجازت دی ہے، ان کے لیے نہ صرف تمام تر سہولیات سے آراستہ میڈیا سینٹر بھی بنایا ہے بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے، مگر جن اداروں کو اجازت نہیں ملی وہ اس عالمی میلے کی کوریج نہیں کرسکتے۔ یعنی جن کے پاس قطری حکومت کا اجازت نامہ نہیں ہوگا، اگر وہ ویڈیوز بناتے ہوئے پائے گئے تو ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح شائقین کے لیے بھی یہ پابندی ہے کہ وہ قطر کی عمارتوں اور دیگر مقامات کے مناظر کیمرے میں عکس بند نہیں کرسکتے۔
نئے قوانین کے مطابق، بین الاقوامی براڈکاسٹرز کو جن چیزوں کی فلمنگ کی اجازت ہوگی ان کی حدود کا تعین بھی قطری حکام کریں گے۔ ہم جنس پرستوں کی حمایت اور قطر کی ثقافت اور اسلامی قوانین کے خلاف کوریج ممنوع ہوگی۔
قطر اپنی نامزدگی کے بعد سے ہی تنازعات کی زد میں ہے اور اب قطر کو نامزد کرنے والے فیفا چیئرمین کا بھی اپنے فیصلے پر افسوس کرنا قطر کو مشکل میں ڈال رہا ہے۔
17 سال تک فیفا کے چیئرمین رہنے والے سیپ بلاٹر نے اپنے حالیہ انٹرویو میں قطر کی نامزدگی کے فیصلے کو غلطی قرار دیا۔ ان کے اس بیان کو ان ممالک نے اعتراف کے طور پر لیا جو پہلے ہی قطر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔