پاکستان

نادرا سے ٹرانسجینڈر کے شناختی کارڈ کے اجرا کے طریقہ کار کی رپورٹ طلب

عدالت کو وضاحت دیں کہ نادرا کس طریقہ کار کے تحت ٹرانسجینڈر کا تعین کر رہا ہے، چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت
|

وفاقی شرعی عدالت نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے ٹرانسجینڈر کی تعریف پر شناختی کارڈ کے اجرا کے طریقہ کار کی رپورٹ 15 روز میں طلب کر لی ہے۔

وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ نادرا ٹرانسجینڈر مرد اور ٹرانسجینڈر عورت کا تعین کیسے کرتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: خواجہ سراؤں کے حقوق: ملازمتوں سے متعلق وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار

اس پر نادرا کی جانب سے وکیل نے کہا کہ نادرا ریگولیشن 13 ٹرانسجینڈر ایکٹ کے آنے سے غیر مؤثر ہو گیا ہے، ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے اجرا سے پہلے نادرا ٹرانسجینڈرز مرد اور ٹرانسجینڈر خاتون کے شناختی جاری کرتا تھا، ٹرانسجینڈر ایکٹ کے اجرا کے بعد شناختی کارڈ پر ٹرانسجینڈر کے لیے ’ایکس‘ لکھا جاتا ہے۔

چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور نے کہا کہ نادرا نے ٹرانسجینڈر خاتون اور ٹرانسجینڈر مرد کی تعریف کیسے طے کی ہے؟ اس پر نادرا کے وکیل نے جواب دیا کہ اس نکتے پر تیاری کا وقت دے دیں۔

چیف جسٹس سید محمد انور نے کہا کہ اتنے دنوں بعد کیس کی سماعت پر بھی آپ نے بنیادی نکتے پر تیاری نہیں کی، عدالت کو وضاحت دیں کہ نادرا کس طریقہ کار کے تحت ٹرانسجینڈر کا تعین کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں سماعت، متعدد افراد کو فریق بننے کی اجازت

دوران سماعت جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد وفاقی شرعی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ پاکستان میں ٹرانسجینڈرز کے بارے میں ایک فلم 18 نومبر کو ریلیز کی جارہی ہے جوکہ ٹرانس عورت اور ایک مرد کی رومانوی کہانی پر مبنی ہے، فلم کی ریلیز کی سینسر بورڈ نے بغیر دیکھے اجازت دے دی ہے، درخواست ہے کہ جب تک ٹرانسجینڈر ایکٹ کا معاملہ طے نہیں ہوتا اس سے متعلق تمام معاملات روک دیے جائیں۔

سینیٹر مشتاق احمد نے مزید کہا کہ نادرا بتائے کہ کوئی مرد جب ٹرانسجینڈر کا شناختی کارڈ بنوانے آئے تو اس کا میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے یا نہیں۔

جسٹس سید محمد انور نے کہا کہ ٹرانسجینڈر قانون سے کتنے افراد کو فائدہ پہنچا ہے؟ اب تک ٹرانسجینڈر ایکٹ سے فائدہ حاصل کرنے والوں کی تعداد صفر بتائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لڑکی کی جنس تبدیلی کی درخواست، عدالت کا خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم

دوران سماعت وزارت انسانی حقوق کے نمائندے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزارت انسانی حقوق میں ٹرانسجینڈر تحفظ سینٹر قائم کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق ٹرانسجینڈرز کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے۔

بعدازاں عدالت نے ٹرانسجینڈرز کی تعریف پر شناختی کارڈ کے اجرا کے طریقہ کار پر نادرا کو 15 روز میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ

یاد رہے کہ یہ قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے، خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح حسب معمول زندگی گزار سکتے ہیں۔

اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا، یہ درخواست اسلامی ماہر قانون ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں ’ہرمافروڈائٹ بچوں‘ کی آزادی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ بھیک مانگنے، ناچنے اور جسم فروشی کے بجائے ’باعزت طریقے‘ سے زندگی بسر کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ خود منظور کیا تو عدالت کیا لینے آئے ہیں؟ عدالت کا جے یو آئی وکیل سے سوال

قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈر کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، جس کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص سزا کا حقدار ہوگا۔

رواں سال ستمبر میں وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ’اسلامی احکام کے منافی‘ قرار دینے کے لیے چیلنج کردیا گیا تھا اور اس کے بعد متعدد افراد نے کیس میں فریق بننے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2018 میں نافذالعمل ہونے والے اس قانون کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔

سیاست سے فوج کا کردار مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں، عمران خان

’قدرت کا نظام‘: ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے پر شائقین کا منفرد ردعمل

فراڈ کے الزام میں گرفتار ہیروں کے تاجر کی اپیل مسترد، برطانیہ سے بھارت حوالگی کی راہ ہموار