پاکستان

پنجاب پولیس کا نیا سربراہ کون؟ صوبائی حکومت نے تین نام تجویزکردیے

پنجاب پولیس کی جانب سے تقرر کیلئے جو نام تجویز کیےگئے ہیں ان کواسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پرپہلے ہی معطل کردیا ہے۔

ملک میں غیر مستحکم سیاسی صورتحال اور بڑھتے تنازعات کے دوران پنجاب پولیس میں انتظامی بحران سے بچنے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے کے نئے پولیس سربراہ کے عہدے کے لیے 3 اعلیٰ پولیس افسران کے نام تجویز کر دیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ پنجاب پولیس کی جانب سے جو تین نام تجویز کیے گئے ہیں ان میں سے ایک ایک افسر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر پہلے ہی معطل کیا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس میں تقرر و تبادلے پر وزیراعلیٰ اور آئی جی میں اختلافات ختم

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاق کو بھیجے گئے پینل میں پنجاب حکومت کی جانب سے جو نام تجویز کیے گئے ان میں اسلام آباد کے سابق انسپکٹر جنرل عامر ذوالفقار، لاہور کے سابق کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) فیاض احمد ڈیو اور لاہور کے موجودہ سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کا نام شامل ہے۔

پینل کے پہلے دو افسران کے نام پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اتحاد نے صوبائی پولیس چیف کے عہدے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دوسری مرتبہ انہیں ناموں کی سفارش کی ہے۔

تینوں پولیس افسران کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مخالف ہیں، اسی لیے ان میں سے کسی کو بھی پولیس سربراہ کے لیے تعینات کے جانے کے بہت کم امکانات ہیں۔

بعض پولیس ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے گریڈ 21 کے تین افسران کا نام پولیس کے اعلیٰ عہدوں کے لیے تجویز کرکے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، انہوں نے پنجاب حکومت کے اس اقدام کو قبل از وقت قرار دیا ہے، پولیس ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے افسران کو مزید سیاست میں گھیسٹا جائے گا اور اس سے ان کا پیشہ ورانہ کردار داغدار ہوگا۔

مزید پڑھیں: غیر مستحکم سیاسی صورتحال، پنجاب پولیس بحرانی کیفیت کا شکار

عہدیدار نے کہا کہ پنجاب پولیس کے دو اہم عہدوں (صوبائی پولیس افسر اور لاہور پولیس کے سربراہ) کی تعیناتی پر دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رہے ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں دونوں جماعتوں کی جانب سے سینئر پولیس افسران کی تعیناتی کے بعد ان کی برطرفی اور تبدیلی پر قانون اور انتظامی اختیارات کا استعمال کیا ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ نئے انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی کے لیے پینل کا اعلان اس وقت کیا گیا جب گریڈ 22 کے پولیس افسر صوبائی پولیس افسر کے طور پر ذمہ داریوں سنبھال رہے تھے، اسی دوران وزیراعظم شہباز شریف ملک سے باہر تھے اور صوبائی پولیس کے سربراہ فیصل شاہکار کی دوسرے صوبے میں منتقلی کی درخواست بھیجی گئی جو وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے منظور ہونی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے تجویز کردہ افسر غلام محمود ڈوگر کو منتقلی کے احکامات نہ ماننے اور اپنا عہدہ چھوڑنے پر مسلسل دہانی کے باوجود پانچ روز پہلے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے انہیں برطرف کردیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی برطرفی کا نوٹی فکیشن وزیراعظم کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے غلام محمود ڈوگر کو پولیس کے اعلیٰ عہدے کے لیے تعینات کرنا سمجھ سے باہر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کا ’ذاتی وجوہات‘ پر عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ

غلام محمود ڈوگر نے اپنی برطرفی کے احکامات کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا لیکن عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو سننے کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے پاس اختیارات نہیں ہیں، غلام محمود ڈوگر کا سی سی پی او کے عہدے پر تقرر کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان ہے لیکن اس کے باوجود وہ یونیفارم میں ہوتے ہوئے تمام سرکاری اجلاسوں کی سربراہی کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق سی سی پی او فیاض احمد ڈیو اُن پولیس افسران میں سے ایک ہیں جن پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے الزامات لگائے تھے، جبکہ وفاق اور پنجاب حکومتیں سابق انسپکٹر جنرل عامر ذوالفقار کے نام پر اتفاق کرسکتی ہیں کیونکہ ان کےمسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

کراچی: ایک ارب روپے سے زائد کے 'فراڈ' پر چینی کمپنیوں، شہریوں کے 9 بینک اکاؤنٹس منجمد

عمران خان پر حملے کے بعد پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کرنے میں ناکام

کیا صدرِ مملکت ایمرجنسی کے نفاذ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں؟