نقطہ نظر

ریاست ابوظبی: جسے دنیا ابھی ٹھیک سے جانتی ہی نہیں

جب 15 سال پہلے ہم پاکستان سے ابوظبی کے لیے نکلے تھے تو ہمارے بھی دل میں بہت قلق تھا کہ دبئی کیوں نہیں جارہے۔

جب 15 سال پہلے ہم پاکستان سے ابوظبی کے لیے نکلے تھے تو ہمارے بھی دل میں بہت قلق تھا کہ دبئی کیوں نہیں جارہے۔ ابوظبی کا تو کبھی نام تک نہیں سنا۔ ہوگی کوئی بیکار سی ریاست۔ لیکن جب وہاں گئے، رہے اور اسے برتا تو جانا کہ یہ تو ایک ایسی ریاست ہے جسے دنیا اچھی طرح سے ابھی جانتی بھی نہیں۔

جزیرہ ابوظبی، عرب امارات کا دارالحکومت ہے جو چاروں طرف سے بحیرہ عرب سے گھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے خوبصورت کارنیش شہر کے چاروں طرف خوبصورت شاہراؤں کے ساتھ گھومتا نظر آتا ہے۔

ابوظبی میں دنیا کے مہنگے سے مہنگے ہوٹل، اسکول، کالج، مارکیٹ اور برانڈ موجود ہیں جن میں دنیا کی مہنگی سے مہنگی اشیا بھی دستیاب ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جس میں 20 درہم سے لے کر ایک لاکھ درہم تک کے لیڈیز ہینڈ بیگ دستیاب ہوتے ہیں۔ 2، 3 ہزار درہم سے لے کر ایک سے 2 لاکھ درہم کی فیس والے اسکول بھی یہاں موجود ہیں۔ پاکستانیوں اور بھارتیوں سے لے کر امریکی، برطانوی اور آسٹریلوی لوگ بھی یہاں آباد ہیں۔ یہ ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جس میں کسی بھی نسل اور قومیت کا مسلمان کسی بھی دیس سے آکر اپنی تمام تر مذہبی اقدار کے ساتھ جدید ترین، مہذب ترین اور محفوظ ترین زندگی جی سکتا ہے۔

یہاں عوامی مقامات پر شائستہ لباس پہننے یعنی پورا جسم ڈھانپنے کے قوانین ہیں۔ وہ دبئی کی راتیں اور گلیمر کا جو ذکر کیا جاتا ہے تو یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ دبئی میں بھی عوامی مقامات پر شائستہ لباس کو سراہا جاتا ہے اور ابوظبی میں تو مزید حدود متعین کی گئی ہیں۔

یہاں ساحل پر بکنی پہنی جاسکتی ہے مگر اس بکنی میں آپ شاپنگ مال نہیں آسکتے۔ شاپنگ مال میں محبوب کے گلے لگ سکتے ہیں اور نہ ہی عوامی مقامات پر ایسا کوئی اور جذباتی اظہار کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنے کی کوشش سیدھا آپ کو ڈی پورٹ کرواسکتی ہے اور پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ عربی ہیں کہ عجمی، امریکی ہیں یا برطانوی۔

یہاں قانوں کی خلاف ورزی کرنے والا کالا ہو یا گورا اپنی سزا سے جان نہیں چھڑا پاتا۔ دراصل عرب ممالک کی اکثریت اس قانون پر عملدرآمد شروع کرچکی ہے جس کے تحت قانون ہر عربی اور عجمی پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ یہ ہم ایشیائی تیسری دنیا کے باشندوں اور ریاستوں کی روایت ہے کہ جس گھر میں پیسہ اور طاقت ہو قانون اس کے گھر میں بکری کی طرح باندھ دیا جاتا ہے۔ انہی روایات کی بنا پر بہت سے کینیڈین اور امریکی پاسپورٹ رکھنے والے مسلم خاندان رہائش کے لیے ابوظبی اور امارات کی دوسری ریاستوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

دبئی کمرشل ہونے کی وجہ سے ان باتوں میں کچھ آزاد خیال ہے اور یورپی اور مغربی عوام کو کچھ آزادیاں فراہم کرتا ہے مگر ابوظبی میں زیادہ تر مقامی اماراتی کمیونٹی ہونے کی وجہ سے مذہبی حدود کی سختی سے پابندی ہوتی ہے۔ خصوصاً پچھلے 15 برسوں میں ابوظبی اپنے نظام اور استحکام کی وجہ سے دبئی کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔

ابوظبی شہر جسے جزیرہ سمجھا اور پکارا جاتا ہے، ایک جدید ترین، مہنگا ترین اور محفوظ ترین شہر ہے۔ دنیا میں دبئی کو کمرشل ہونے کی وجہ سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے اور تیسری دنیا میں بھی دبئی کا نام ہی زیادہ جانا پہچانا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابوظبی جیسی جدید ترین، محفوظ ترین اور خوبصورت ترین مسلم ریاست پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ہو۔

ابوظبی ریاست کے 2 حصے ہیں۔ ایک جزیرہ کہلاتا ہے اور دوسرا آف لینڈ۔ آف لینڈ میں وہ چھوٹے علاقے ہیں جو شہر کے وسطی حصے سے دُور ہیں۔ ان میں مدینہ خلیفہ، مصفحہ، شاہاما، الشمخا اور سویحان وغیرہ شامل ہیں۔ مدینہ خلیفہ، مدینہ زید، مصفحہ، بڑے جزیرے سے تقریباً 30 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دبئی اور ابوظبی میں پاکستان سے صرف مزدور طبقہ آتا ہے وہ شدید مغالطے میں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر، انجینیر، بینکر اور آئی ٹی شعبے کے جتنے اعلیٰ عہدوں پر موجود پاکستانی متحدہ عرب امارات میں ہیں شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب شعبوں میں جتنے مواقع پچھلے 20 سالوں میں ان ریاستوں میں پیدا ہوئے ہیں شاید ہی کہیں اور ہوئے۔

ایشیائی تعلیم یافتہ افراد امریکا اور برطانیہ کی نسبت یہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور انتہائی اعلیٰ طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو تیسری دنیا سے ہونے کے باوجود یہاں ان تمام سہولیات سے آراستہ ہیں جو یورپی اور امریکیوں کو میسر ہیں۔

دوسرے عرب ممالک جہاں عرب لوگ شدید تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کے مقابلے میں عرب امارات کے مقامی عربی خاصے مہذب اور متین سمجھے جاتے ہیں جو غیر عرب کے ساتھ مروت اور رواداری کا سلوک رکھتے ہیں۔

پورے جزیرے کے اندر، باہر اور دُور و نزدیک کے تمام تر دیہاتی علاقوں میں بھی پکی سڑکیں، بجلی اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ شہر کے امیر ترین عرب عموماً شہر سے باہر دیہاتی علاقوں میں بڑے بڑے ولاز میں رہنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان بڑی بڑی گاڑیاں باآسانی کھڑی ہوسکیں اور ان کے بچے ریت پر کواڈ بائیکنگ کرسکیں۔

سچ تو یہ ہے کہ جہاں پاکستان کی امارت ختم ہوتی ہے وہاں سے عرب امارات کا لائف اسٹائل شروع ہوتا ہے اسی لیے دنیا بھر میں انہیں امیر ترین اور جدید ترین ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

صوفیہ کاشف

صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog

پر دیکھ سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔