پاکستانی سیاست کی پہیلیاں: ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا!
’سہیلی بوجھ پہیلی‘ گئے وقتوں میں فرصت کا مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ یہ لفظی تفریح ذہنی آزمائش کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی جو مخاطب کو ’بوجھو تو جانیں‘ کا چیلنج دیتی تھی۔ مگر بھلا ہو ہمارے سیاستدانوں کا جنہوں نے ایک بار پھر پہیلیاں بجھوانے کا یہ سلسلہ شروع کرکے قوم کا دماغ کند نہ ہونے دینے کا سبب مہیا کر رکھا ہے۔
سیاست کی گرما گرمی کے ماحول میں کسی ایک جانب سے آواز آتی ہے ’ڈرٹی ہیری‘، اور پوری قوم اس کا جواب تلاش کرنے میں جت جاتی ہے۔ فوری طور پر ٹوئٹر سے رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ اسی سوشل نیٹ ورک پر اب ہماری اجتماعی دانش کی بساط بچھی ہوئی ہے۔
جس طرح کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے گوگل کا استعمال کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان کے تمام سیاسی معموں کو سمجھنے کے لیے لوگ اب ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم انہیں مایوس نہیں کرتا کیونکہ اس چڑیا کی بولتی کبھی بند نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے لے کر سکہ بند صحافیوں تک سب دن رات ٹوئٹر پر موجود ہوتے ہیں۔
جیسے ہی کسی لیڈر کی جانب سے بیان داغا جاتا ہے تو اس کا تجزیہ اور مخالفین کی جانب سے ’پوسٹ پارٹم‘ شروع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب ’ڈرٹی ہیری‘ یا ’مسٹر ایکس، وائی‘ جیسی پہیلیاں بجھوائی جاتی ہیں تو خلقِ خدا ٹوئٹر سے رجوع کرتی ہے۔ یہاں اللہ کے بہت سے بندے اپنے اشارے کنائے سے رہنمائی کرتے ہیں، کئی اندازے لگاتے ہوئے 2، 3 نام بھی بتا دیتے ہیں۔ قوم کے 2، 4 دن اسی الجھن کو سلجھانے میں گزر جاتے ہیں۔ پھر اس دوران خدا کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ پہیلی پوچھنے والا خود ہی نام بتا دیتا ہے۔
ہماری سیاست کے خان صاحب اپنی سادہ لوحی میں ناگفتنی بھی کہہ جاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں سائفر والا معاملہ ہی دیکھ لیجیے، مبینہ آڈیو لیک میں خان صاحب اپنے ساتھیوں کو سختی سے ’اس ملک‘ کا نام زبان پر نہ لانے کی ہدایت کرتے ہیں لیکن چند ہی دنوں میں ان کی اپنی زبان سے یہ نام پھسل جاتا ہے۔
عوام کی ذہانت کی آزمائش کے لیے سیاست کے شیر اور شیرنیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ حال ہی میں ’بوجھو تو جانیں‘ کے سلسلے میں ’کوچ‘ کا لفظ اچھالا گیا۔ عوام تکے لگانے میں مصروف ہوگئے اور ’ٹوئٹر بابا‘ کی رہنمائی سے بالآخر جواب تک پہنچ گئے۔
’ذہن لڑائیے‘ کی اس مشق میں ہمارے صحافی بھی قوم کو مصروف رکھتے ہیں۔ کسی ایک جانب سے ’ون لائنر‘ آتا ہے کہ ’بڑی خبر آنے والی ہے‘، یا ’ایک اہم ملاقات‘ اب صحافی خاتون یا حضرت کے متعلقہ اور مخالف حلقوں میں ایک ہیجان برپا ہوجاتا ہے۔ قیاس آرائیوں کے ساتھ ساتھ صحافی کے ماضی کے تحقیقی پس منظر کے مطابق اس کی حسبِ توفیق ’تعریف و توصیف‘ بھی شروع ہوجاتی ہے جسے عرفِ عام میں ٹرولنگ کہا جاتا ہے۔ بریکنگ نیوز آجانے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جو بعد ازاں خبر کے بخیے ادھیڑنے میں بدل جاتا ہے۔ ’جواب ڈھونڈیے‘ کی مشق کے لیے اکثر پوچھا جاتا ہے ’وہ کون تھا‘؟
صحافی ہی نہیں ہمارے لیڈران کرام بھی اس ’پہیلی‘ کے دلداہ ہیں، چنانچہ ٹوئٹر، پریس کانفرنسوں، جلسوں اور کنٹینرز سے اکثر اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک اہم تعیناتی کے بارے میں بھی پہیلیاں بوجھی جارہی ہیں۔ مشہور صحافی لکھتے ہیں کہ ’فیصلہ کر لیا گیا‘۔ بس ان کے ٹویٹ کے جواب میں چند منٹوں میں ہزاروں جواب آتے ہیں، اسی طرح فرصت سے یہ مشقِ سخن جاری رہتی ہے۔
سیاسی پہیلیوں کی ایک شکل الفاظ کے توڑ مروڑ اور مختلف اصطلاحات کی صورت میں بھی رائج ہے۔ جہاں کسی شخصیت یا ادارے کی تنقید پر توہین کے الزام میں سزا کا خوف ہوتا ہے وہاں ایک حلقہ مصلحتاً ’لوہاری کورٹ‘ جیسے الفاظ استعمال کرلیتا ہے۔ ماضی میں اس کے لیے ’کنگرو کورٹس‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا۔
اگر آپ یہ سوال پوچھیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو پہیلیاں بجھوانے کا شوق کیوں لاحق ہے تو اس کا جواب ہے کہ صرف ایسے مقاماتِ آہ وفغاں کہ ’بات پر واں زبان کٹتی ہے‘ درپیش ہوں تب ان کے الفاظ گول مول ہوجاتے ہیں۔ وگرنہ آپس کے عوامی معاملات میں تو ہماری سیاست کے خواتین و حضرات اور ان کے حامی و مخالفین ایک دوسرے کا تیا پانچہ کرنے میں نہ تو کسی مصلحت کے قائل ہیں نہ اخلاقیات کے۔
سیاسی اصطلاحات جو 1990ء کی دہائی میں ’لوٹے‘، ’ہارس ٹریڈنگ‘ اور مسٹر ٹین پرسنٹ جیسے ڈھکے چھپے الفاظ تک محدود تھیں، اب ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، فتنہ، بھکاری اور بوٹ پالیشیا قرار دینے تک دراز ہوچکی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ روز بروز ان ’اختراعات‘ میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔
یہ الفاظ ذوقِ سلیم رکھنے والے پاکستانیوں کی طبع نازک پر خواہ کتنے ہی گراں گزریں لیکن ان کی گردان رات دن جاری رہتی ہے۔ ٹوئٹر استعمال نہ کرنے والے افراد اگرچہ اس ’چخ چخ‘ سے محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن ٹی وی چینلز سے تو کوئی مفر نہیں جہاں رات کا بیشتر وقت سیاسی گفتگو اور بحث و مباحثے کے لیے مختص ہوتا ہے۔
بیشتر شوز کا فارمیٹ حریف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بلا کر ان سے گرما گرم بحث پر مبنی ہوتا ہے جس میں آپ کو معموں پر مبنی گفتگو سے لے کر دشنام طرازی تک سب کچھ سننے کو ملتا ہے، سوائے کسی معاملے کے نتیجہ خیز حل کے۔ پروگرام کے شروع ہوتے ہی شرکائے گفتگو کو دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاملات گرما گرمی کی جانب ہی بڑھنے والے ہیں۔
ان دنوں تو اکثر شو دو ’جانی حریف‘ پارٹیوں کے لیڈران پر مشتمل ہوتے ہیں۔ صوبوں میں اکثریت رکھنے والی یا نسبتاً چھوٹی پارٹیوں کی ان شوز میں کوئی نمائندگی نظر نہیں آتی نہ ہی پرائم ٹائم میں عوامی مسائل پر گفتگو سننے کو ملتی ہے۔
پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی اسی صورتحال کو نوٹ کرتے ہوئے ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے ٹویٹ کی کہ ’ایسا لگتا ہے پاکستان میں تباہ کن سیلاب کبھی آیا ہی نہیں تھا‘۔
مائیکل کوگل مین کیا جانے کہ ہماری قوم اس وقت ملک کے اہم ترین سیاسی معمے کو سمجھنے اور سمجھانے میں مصروف ہے۔ سیلاب تو آتے رہتے ہیں اور لوگ بھی بے گھر اور مرتے رہتے ہیں۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔