نقطہ نظر

ٹائپ رائٹرز کا عجائب گھر بنانے والے حزب اللہ قریشی کی کہانی

اپنے بعد اپنے ٹائپ رائٹرز کے وسیع مجموعے کے لیے فکرمند، شکارپور کے حزب اللہ قریشی کی داستان

یہ حزب اللہ قریشی کے ٹائپ رائٹرز کی کلیکشن ہے اور یہاں ٹائپ رائٹر کی آواز کبھی نہیں تھمتی۔ لال، ہرا، پیلا، نارنجی، سفید، کالا، نیلا، بھورا، سرمئی غرض ان کی کلیکشن میں آپ کو ہر رنگ اور شکل و صورت کا ٹائپ رائٹر ملے گا۔

ان کی ملکیت میں کتنے ٹائپ رائٹر ہیں، اس کی درست تعداد تو انہیں بھی نہیں معلوم لیکن کچھ سال پہلے جب انہوں نے آخری بار گنتی کی تھی تب حزب اللہ کے پاس 120 ٹائپ رائٹرز تھے۔

انہوں نے فون پر مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پھر میں نے کچھ اور ٹائپ رائٹرز شامل کیے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے عجائب گھر میں کم از کم 120 ٹائپ رائٹرز تو ضرور ہیں‘۔

ان سے گفتگو کے دوران، عقب سے ٹائپ رائٹر کے چلنے کی آواز مستقل آرہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس وقت وہ کچھ لکھ رہے ہیں جس کے جواب میں انہوں نے کہا ’یہ میرے پاس ٹائپنگ سیکھنے آنے والے طلبہ کے ٹائپ رائٹرز کی آوازیں ہیں‘۔

شکارپور اپنی تاریخی عمارتوں اور اچار کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں کے ایک علاقے قلعہ قافیلا کے اولڈ پاور ہاؤس روڈ پر حزب اللہ قریشی کا ٹائپنگ اور کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ واقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 10 سال تک اپنے شوق کے متلاشی رہے اور پھر اب سے تقریباً 40 سال پہلے انہوں نے اس ادارے کا آغاز کیا۔ اب ان کا ادارہ سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ میں رجسٹرڈ بھی ہے۔

یہ نصف صدی قبل کی بات ہے کہ سیمابی روح رکھنے والے حزب اللہ قریشی نے شکارپور میں اپنے آبائی گھر کو چھوڑا اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے نکلے۔ انہوں نے خیرپور کی شاہ عبدالطیف یونیورسسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد انہوں نے معاشیات میں ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں وہ ہومیوپیتھک طب میں ڈپلومہ کی تعلیم کے لیے سکھر چلے گئے۔ سکھر سے وہ 1977ء میں کراچی گئے جہاں انہوں نے ٹائپنگ کورس میں داخلے کا سوچا اور پھر تو انہیں ٹائپ رائٹروں سے عشق ہوگیا۔

پھر اگلا مرحلہ ٹائپ رائٹر کی مرمت میں ڈپلومہ حاصل کرنا تھا کیونکہ وہ اپنے ٹائپ رائٹر کو اس کی اصل حالت میں ہی محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ یوں انہوں نے ٹائپ رائٹرز جمع کرنے کا آغاز کیا۔

حزب اللہ قریشی نے بتایا کہ ’شروع میں میرا ارادہ صرف چند اچھے ٹائپ رائٹرز جمع کرنے کا تھا کیونکہ میں شکارپور واپس آکر ٹائپنگ سکھانا چاہتا تھا لیکن بعد میں یہ میرا جنون بن گیا‘۔

جس ٹائپ رائٹر پر ان کی نظر پڑتی، حزب اللہ اسے حاصل کرنا چاہتے۔ چونکہ وہ ملک بھر سے ٹائپ رائٹرز جمع کررہے تھے اس لیے وہ ہر ٹائپ رائٹر کو استعمال بھی کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں نے شروعات کباڑیوں سے کی جہاں میں اکثر خراب حالت میں پرانے اور ٹوٹے ہوئے ٹائپ رائٹرز دیکھتا رہتا تھا۔ ٹائپ رائٹرز کی مرمت میں ڈپلومے کی بدولت میں انہیں صحیح کرکے تقریباً نئی جیسی حالت میں لے آتا تھا۔ یہ کام سننے میں جتنا آسان لگ رہا ہے اتنا ہے نہیں‘۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح کسی کی موت کے بعد ان کے گھر والے مرحوم کے سامان ٹھکانے لگاتے تو حزب اللہ ان کے ٹائپ رائٹرز گھر لے آتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ان ٹائپ رائٹرز کو گھر لے آتا تھا بالکل کسی کتے اور بلی کےلاوارث بچے کی طرح جنہیں کوئی بھی گھر میں رکھنا نہیں چاہتا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنے ٹائپ رائٹرز کے لیے پورا ملک گھوما ہوں۔ کراچی، لاہور کی مصری شاہ آئرن مارکیٹ، گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ، یہاں تک کہ ٹائپ رائٹرز کے لیے میں کوئٹہ کے چمن بارڈر تک گیا ہوں‘۔ ان کا کہنا ہے تھا ’نئی نسل کو کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ میں زیادہ دلچسپی ہے، وہ نہیں جانتے کہ ٹائپ رائٹر کے ساتھ کیا کیا جائے، لیکن میں جانتا ہوں‘۔

وہ متعدد ٹائپ رائٹرز کو واپس ان کی اصل حالت میں لاچکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہرگز آسان کام نہیں تھا کیونکہ ٹائپ رائٹرز کے پرزے بازار میں باآسانی دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔ حزب اللہ نے بتایا کہ ’کبھی کبھار مجھے بھاری دل کے ساتھ کچھ ٹائپ رائٹرز کو توڑنا پڑتا ہے تاکہ اس کے پرزوں سے دیگر ٹائپ رائٹرز کو ٹھیک کرسکوں‘۔

ان کی کلیکشن میں ایسے بھی ٹائپ رائٹرز شامل ہیں جو عربی، فارسی، اردو، سندھی، جرمن، روسی اور دیگر مختلف زبانوں میں بھی ٹائپ کرسکتے ہیں۔ وہ لکڑی اور دھات سے بنے 1878ء ماڈل ریمنگٹن 7 کو پرانے ٹائپ رائٹرز میں سب سے قیمتی ٹائپ رائٹر کے طور پر شمار کرتے ہیں۔

حزب اللہ اپنے ادارے میں طلبہ کو نہ صرف ٹائپنگ سکھاتے ہیں بلکہ وہ انہیں اس کی تاریخ کے حوالے سے بھی آگاہی دیتے ہیں۔ انہوں نے فخریہ انداز میں مجھے بتایا کہ ’میرے طلبہ جانتے ہیں کہ کس طرح کرسٹوفر لیتھم شولز نے کیورٹی (QWERTY) بورڈ ایجاد کیا اور کس طرح کرسٹوفر، سیموئیل ڈبلیو سول، کارلوس گلیڈن اور جان پریٹ نے امریکا میں دنیا کا پہلا ٹائپ رائٹر ایجاد کیا‘۔

اس انسٹیٹیوٹ کو حزب اللہ اپنے چھوٹے بیٹے طارق کے ساتھ چلاتے ہیں۔ اس کی نچلی منزل تدریس کے لیے مختص ہے جبکہ بالائی منزل ٹائپ رائٹرز کی کلیکشن کے لیے مختص ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’یہ زیادہ بڑی جگہ نہیں، صرف 12 بائے 24 فٹ کا ہال ہے جہاں میں نے اپنے ٹائپ رائٹرز رکھنے کے لیے ریک اور شوکیس رکھے ہوئے ہیں‘۔

انہوں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا کہ ’اسے ٹائپ رائٹرز کا عجائب گھر کہنا ہی بہتر ہوگا۔ درحقیقت یہ پاکستان میں ٹائپ رائٹر کا پہلا میوزیم ہے۔ ٹائپ رائٹرز کا موئن جو دڑو‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ بارشوں سے کچھ ٹائپ رائٹرز کو نقصان پہنچا ہے۔ چھت سے ٹپکتا پانی اور نمی ٹائپ رائٹرز کے لیے نقصاندہ ہیں۔ میں اسے دوبارہ ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میں اب پہلے کی طرح جوان نہیں رہا۔ میں اب متعدد بیماریوں کا شکار ہوں، کبھی کبھی میں یہ سوچ کے پریشان ہوجاتا ہوں کہ اس خزانے کو کس طرح محفوظ رکھا جائے‘۔

حزب اللہ نے بتایا کہ ’میں نے اپنی اس پریشانی کا ذکر شکارپور میں سندھ آرکایئوز کے ذمہ دار نسیم مغل سے کیا۔ ان کی کتاب شکارپور ہیری ٹیج میں انہوں نے میرا ذکر کیا ہے اور ان کا ارادہ تھا کہ میرے عجائب گھر کو وہ اپنے محکمے کی سرپرستی میں لے لیں۔ مگر بدقسمتی سے ان کی رحلت کے ساتھ ہی میرے عجائب گھر کی سرپرستی کا معاملہ بھی ختم ہوگیا‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ٹائپ رائٹرز کے مشغلے پر میں نے اپنی عمر کے 50 سال لگائے ہیں۔ میرے 5 بیٹوں اور 3 بیٹیوں میں سے صرف میرے چھوٹے بیٹے طارق کو ٹائپ رائٹرز سے میری محبت وراثت میں ملی ہے۔ جب ہم نہیں رہیں گے تب میرے ٹائپ رائٹرز کا کیا ہوگا؟ کیا میرا عجائب گھر فعال رہے گا؟ اگر نہیں تو کیا کوئی اور حزب اللہ ہوگا جو میری طرح ان ٹائپ رائٹرز کو محفوظ رکھے گا؟‘


یہ مضمون 6 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

شازیہ حسن

لکھاری ڈان اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔