طالبان نے ملا محمد عمر کی تدفین کا مقام ظاہر کردیا
طالبان قیادت نے طالبان کے بانی سمجھے جانے والے رہنما ملا محمد عمر کی تدفین کا مقام ظاہر کردیا ہے جن کی موت اور تدفین کو برسوں تک خفیہ رکھا گیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 2001 میں امریکی قیادت کے حملے کے ذریعے طالبان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ملا عمر کی صحت اور ان کے ٹھکانے کے بارے میں مختلف افواہیں گرم رہیں، اپریل 2015 میں طالبان نے اعتراف کیا تھا کہ ملا عمر کی موت 2 برس قبل (2013 میں) ہوچکی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ تحریک کے سینئر رہنماؤں نے صوبہ زابل کے ضلع سوری میں عمرزو کے قریب ملا عمر کی قبر پر ایک دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’بہت سے دشمن آس پاس تھے اور ملک پر قبضہ کرلیا گیا تھا اس لیے مقبرے کو نقصان سے بچانے کے لیے اسے خفیہ رکھا گیا تھا، صرف خاندان کے قریبی افراد ہی اس مقام سے واقف تھے‘۔
حکام کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں طالبان رہنماؤں کو سفید اینٹوں کے ایک سادہ مقبرے کے گرد جمع ہوئے دیکھا گیا، سبز دھات کے پنجرے میں بند قبر بجری سے ڈھکی ہوئی نظر آئی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’اب فیصلہ ہو گیا ہے، قبر کی زیارت کے لیے عام شہریوں پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی‘۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان نے ملا عمر کی زیر زمین چھپائی گئی گاڑی نکال لی
خیال رہے کہ افغانستان پر امریکا کی زیر قیادت فوج کے 20 سالہ قبضے کے اختتام کے بعد طالبان نے گزشتہ برس اگست میں دوبارہ اقتدار سنبھالا ہے۔
طالبان رہنما ملا محمد عمر لگ بھگ 55 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے، انہوں نے ایک دہائی طویل سوویت قبضے کے بعد 1993 میں شروع ہونے والی عالمی خانہ جنگی سے نمٹنے کے لیے طالبان کی بنیاد رکھی تھی۔
ملا محمد عمر کی زیر قیادت طالبان نے اسلامی حکمرانی کا ایک انتہائی سخت ورژن متعارف کرایا جس میں خواتین کو عوامی زندگی سے بے دخل کردیا گیا اور پھانسی اور کوڑے مارنے سمیت عوامی سزائیں متعارف کروائیں۔
ملا عمر کے مزار پر دعائیہ تقریب اس واقعے سے ایک روز بعد ہوئی ہے جب صوبائی حکام نے ان اطلاعات کی تردید کی تھی کہ پنجشیر وادی میں احمد شاہ مسعود کے مقبرے کی توڑ پھوڑ کی گئی ہے، اس حوالے سے ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر یہ سچ ہے تو ذمہ داران کو سزا دی جائے گی۔
افغانستان میں احمد شاہ مسعود کے حوالے سے ایک ملی جلی رائے پائی جاتی ہے، سوویت قبضے کے خلاف مزاحمت کی قیادت کرنے پر عام افغانوں کی جانب سے انہیں سراہا جاتا ہے، لیکن طالبان کی جانب سے انہیں نفرت کا سامنا رہا اور وہ 2001 میں القاعدہ کے ہاتھوں اپنے قتل تک لڑتے رہے۔
ان کی قبر گرینائٹ اور سنگ مرمر سے بنے ایک شاندار مقبرے میں ہے جس کے عقب میں وادی پنجشیر واقع ہے، گزشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔
مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ ایک نئے آنے والے جنگجوؤں کے دستے نے مقبرے کے پتھر کو توڑ دیا اور بے حرمتی کی گئی، واقعے کی ویڈیو مقامی میڈیا نے شیئر کی اور سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر گردش کرتی رہی تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
مزید پڑھیں: افغان حکومت کی ملا عمر کے انتقال کی تصدیق
اس حوالے سے ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ ’یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہلمند اور قندھار سے آنے والی نئی افواج پنجشیر میں داخل ہوئیں اور قومی ہیرو کے مقبرے کو تباہ کر دیا‘۔
صوبہ پنجشیر میں سربراہ برائے اطلاعات و رسومات نصر اللہ ملک زادہ نے مقبرے کو نقصان پہنچائے جانے کی تردید کی اور ایک ویڈیو جاری کی جس میں اس کے برقرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
تاہم اس ویڈیو کلپ میں واضح طور پر مکمل مقبرہ نہیں دکھایا گیا، خاص طور پر وہ حصہ نہیں دکھایا گیا جو اصل ویڈیو میں خراب دیکھا گیا۔
نصر اللہ ملک زادہ نے صحافیوں کی جانب سے مقبرے کی زیارت یا تصویر لینے کی درخواستوں سے انکار کردیا۔
اس حوالے سے ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو بتایا کہ کسی کو بھی مرنے والوں کی توہین کا حق نہیں ہے۔