پاکستان

پشاور ہائی کورٹ نے مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر کالعدم قرار دے دی

سرکاری ملازم کے حکم کی خلاف ورزی سے متعلق دفعہ 188 کی خلاف ورزی پر ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی، عدالت عالیہ

پشاور ہائی کورٹ نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دفعہ 144 کے تحت پابندی کے باوجود لوئر دیر میں احتجاج کرنے والے متعدد مظاہرین کے خلاف درج ایف آئی آر خارج کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل بینچ نے قرار دیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 (سرکاری ملازم کے حکم کی خلاف ورزی) کی خلاف ورزی قابلِ سزا جرم نہیں، اس پر ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔

بینچ نے قرار دیا کہ اس طرح کے جرم کا نوٹس صرف اس وقت لیا جا سکتا ہے جب کہ متعلقہ سرکاری ملازم کی جانب سے متعلقہ عدالت میں تحریری شکایت کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ نے 25 جون تک عمران خان کی راہداری ضمانت منظور کرلی

بینچ نے ایف آئی آر میں نامزد عتیق الرحمٰن اور دیگر 21 مظاہرین کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو منظور کرلیا جنہوں نے مذکورہ ایف آئی آر کے اندراج کو غیر قانونی قرار دے کر خارج کرنے کی درخواست کی تھی۔

ڈپٹی کمشنر دیر لوئر نے 6 اکتوبر 2022 کو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت بعض سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی جس میں مساجد اور دیگر مذہبی مقامات کے علاوہ عوامی مقامات پر لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

درخواست گزاروں نے دیگر مظاہرین کے ساتھ 7 اکتوبر کو تیمرگرہ میڈیکل کالج کے قریب کالج انتظامیہ کی جانب سے انہیں کچھ اسامیوں پر بھرتی کے لیے نظر انداز کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کو فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ افراد کے کیسز میں حکم دینے سے روک دیا گیا

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت خال پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور ایس ایچ او مہران شاہ اس کے شکایت گزار تھے۔

عام طور پر ڈپٹی کمشنر مختلف سرگرمیوں کے سلسلے میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت احکامات جاری کرتے رہے ہیں اور اس طرح کے احکامات کی خلاف ورزی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت جرم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ: ایف آئی اے کو کرک میں خام تیل کی چوری کی تحقیقات کرنے کا حکم

مختلف اضلاع میں پولیس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت جاری کردہ احکامات کی خلاف ورزی پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت ایف آئی آر درج کرتی رہی ہے لیکن پشاور ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں اب اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

ایڈووکیٹ اصغر علی اور سید عبدالحق درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور استدعا کی کہ ایس ایچ او نے ناقابل سزا جرم کی ایف آئی آر درج کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔

بینچ نے ریمارکس دیے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر پر یہ فرض عائد کرتی ہے کہ وہ متعلقہ کتاب میں قابل شناخت جرم کے بارے میں معلومات درج کرے اور اس کے پاس ایف آئی آر کے اندراج سے انکار کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

عمران خان مقدمہ درج نہیں کروا سکتے تو پنجاب حکومت سے استعفیٰ دے کر گھر جائیں، قمر زمان کائرہ

ورلڈ کپ سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرنے پر صدر، وزیر اعظم کی ٹیم کو مبارکباد

جماعت اسلامی کے سینیٹر کا ’جوائے لینڈ‘ کی نمائش روکنے کا مطالبہ