پاکستان

کراچی: اشتعال انگیز تقریر کیس، ایم کیو ایم کے 10 رہنما 3 مقدمات میں بری

ایم کیو ایم کے ان سینئر رہنماؤں میں سابق کنوینر فاروق ستار، عامر خان، وسیم اختر، رؤف صدیقی، خواجہ اظہار الحسن اور دیگر شامل ہیں۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 10 سینئر رہنماؤں کو 2016 میں الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر سننے اور اس میں معاونت سے متعلق تین مقدمات میں بری کر دیا، جس میں خواتین کی توہین اور ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال دلانے کے الزامات تھے۔

ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں میں سابق کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان، وسیم اختر، رؤف صدیقی، خواجہ اظہار الحسن، سلمان جاوید بلوچ، محفوظ یار خان، محمود عبدالرزاق اور محمد جاوید شامل ہیں، انہیں عدم شواہد کی بنیاد پر بری کیا گیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج نے مرکزی جیل میں جوڈیشل کمپلیس میں مقدمے کے سماعت کے بعد محفوظ فیصلہ سنایا تھا، جو ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے بریت کی درخواست کے بعد محفوظ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اشتعال انگیز تقاریر کیس: ایم کیو ایم رہنماؤں پر فرد جرم عائد

جج نے نوٹ کیا کہ استغاثہ عدم شواہد کی وجہ سے ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

لہٰذا 6 سال سے جاری مقدمہ ختم کر دیا گیا، جج نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 256–کے کے تحت درخواست جمع کروانے کی اجازت دی اور بری کردیا۔

واضح رہے کہ شوکت حیات نے ایم کیو ایم رہنماؤں کی جانب سے بریت کی درخواست جمع کروائی تھی، انہوں نے دلائل دیے کہ ان رہنماؤں کا تقاریر میں کوئی کردار نہیں تھا، جو پارٹی کے بانی نے لندن سے کی تھیں، انہوں نے مزید مؤقف اپنایا تھا کہ مبینہ جرم کو ان رہنماؤں سے جوڑنے کے کوئی نمایاں ثبوت نہیں ہیں، لہٰذا انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کو بری کیا جائے۔

دوسری جانب استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ الزامات کی تصدیق اور جرائم کے ارتکاب میں ملزمان کے کردار کو ثابت کرنے کے لیے کافی مواد کے ساتھ فرانزک شواہد بھی موجود ہیں اور انہوں نے قانون کے مطابق سزا دینے کے درخواست کی۔

استغاثہ کے مطابق ایک شہری نسرین علی نے ملیر پولیس اسٹیشن میں 26 فروری 2016 کو رپورٹ درج کروائی تھی کہ وہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور انٹرنیٹ استعمال کر رہی تھیں کہ ان کی نظر سے ایک ویڈیو گزری جس میں ایم کیو ایم کے رہنما اور کارکنان موجود ہیں، جہاں لندن میں میقم پارٹی کے بانی الطاف حسین نے بڑی تعداد میں خواتین کی موجودگی میں انسانوں کے قدرتی تولیدی عمل کے حوالے سے نامناسب الفاظ کھلے عام استعمال کیے تھے۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے بانی کا اس طرح کا بیان سن کر پارٹی کی خواتین کارکنان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ ان کے رہنماؤں کی جانب سے الطاف حسین کے ایسے ریمارکس کی تائید کی جاتی رہی جو بظاہر کسی نشے کے زیر اثر دکھائی دیتے تھے اور بے قابو ہو کر بات کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: خواتین سے'فحش 'گفتگو پرالطاف حسین کیخلاف مقدمہ

استغاثہ نے مزید الزامات عائد کیے تھے کہ ایم کیو ایم سربراہ کی جانب سے ایسی تقریر سے ہزاروں خواتین کی توہین ہوئی ہے، اسی طرح ان کے رہنماؤں نے ریاستی اداروں کی بھی توہین کی تھی اور یہ مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی شامل رہے، جس میں دہشت گردی، بھتہ اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانا بھی شامل ہے۔

ایک دوسرے شہری دلاور خان نے بھی سچل پولیس اسٹیشن میں 4 مارچ 2016 کو مقدمہ درج کروایا تھا، انہوں نے بھی یہی حقائق بیان کیے تھے کہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی تقریر سنی جس میں کھلے عام انسانی تولیدی نظام پر بات کر رہے تھے، جو کسی میڈیکل کالج کے نہیں بلکہ عام عوام کے سامنے بات کر رہے تھے جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریر میں خواتین اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف توہین آمیز بیانات تھے۔

تیسرا کیس بریگیڈ پولیس کے انسپکٹر غلام نبی آفریدی کی جانب سے12مئی 2016 کو دائر کیا گیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے مقامی انتظامیہ سے اجازت لیے بغیر بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کے سامنے شاہراہ قائدین بلاک کرکے پارٹی کے شہدا کے حوالے سے اجتماع منعقد کیا تھا۔

استغاثہ نے الزام عائد کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے لندن سے مجمعے سے خطاب کیا تھا، جو سپریم کورٹ کی جانب سے عائد پابندی کی خلاف ورزی تھی، جس میں فوج، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان اور افسران کو ان کے نام لے کر دھمکیاں دی گئی تھیں۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ الطاف حسین نے بے بنیاد الزامات لگا کر اپنے کارکنوں کو ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم پر اکسایا تھا، اور دہشت گردی پھیلانے کے لیے فوج کے عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب اور کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا ہاؤسز حملہ کیس: فاروق ستار،عامر خان سمیت 60 ملزمان پر فرد جرم عائد

مزید کہا گیا تھا کہ مجمعے میں شامل ایک ہزار سے 1200 کارکنان اور رہنماؤں نے پارٹی سربراہ کے بیانات کی تائید کی تھی۔

بچوں میں موبائل فون کے عادی ہونے کی علامات کیا ہیں؟

سابق اہلیہ نے تشدد کے جھوٹے الزامات لگائے، انہیں نوٹس جاری کیا جائے، فیروز خان

امریکی ذخائر میں بڑی کمی کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ