پاکستان

ریکوڈک ریفرنس: پاکستان پر عائد جرمانہ ’نیوکلیئر‘ بم ہے، سپریم کورٹ

ایک مشاورتی باڈی بنانی چاہیے جو معاہدے کے تمام معاملات کی نگرانی کرے، چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ عالمی عدالت کا پاکستان پر عائد جرمانہ ’نیوکلیئربم‘ ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے سے اثرانداز ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی جہاں چیف جسٹس نے کہا کہ 10 ارب کا جرمانہ کسی صوبائی ادارے کا معاملہ نہیں بلکہ ملک کے خلاف ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ریکوڈک ریفرنس پر عدالتی معاونین مقرر، بلوچستان ہائیکورٹ بار کو نوٹس

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ اگر بین الاقوامی کمپنی کے لیے رولز میں نرمی کرنے کا معاملہ پچھلے ریکوڈک معاہدے میں درج ہوتا توعدالت اسے کالعدم قرار نہ دیتی جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ریکوڈک اور کان کنی کے دیگر رولز صوبائی حکومت کے اختیار میں ہیں تو کیا وفاق صوبائی قوانین میں ترمیم کا مجاز ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان حکومت نے ہی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے کان کنی کے رولز میں نرمی کی تھی، جس پر ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے پچھلے معاہدے کے لیے رولز میں نرمی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک ریفرنس: ایسی مثال قائم نہیں کر سکتے کہ عدالتی فیصلوں کا جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مشاورتی باڈی بنانی چاہیے جو معاہدے کے تمام معاملات کی نگرانی کرے، ریکوڈک منصوبے میں ایک ارب کی سرمایہ کاری وفاق کر رہا ہے اور اختیارات بلوچستان حکومت کے سپرد کر دیے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے سے جڑے ہر معاملے پر مستعدی اور شفافیت سے کام لیا جائے گا، جس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اس ملک میں شفافیت کا حال یہ ہے کہ کابینہ میں کچھ فائلیں کھولے بغیر ہی منظوری دے دی جاتی ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا بین الاقوامی معاہدے وفاق کا اختیار ہیں اور ان میں صوبائی حکومت مداخلت کر سکتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے میں کہیں بھی بین الاقوامی کمپنی کی کرپشن کا ذکر موجود نہیں ہے، بلوچستان حکومت کے پاس سونا ریفائن کرنے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی کمپنی نے فائدہ اٹھایا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ افغانستان نے بدامنی کے دنوں میں بھی پاکستان سے بہتر شرائط پر بین الاقوامی معاہدے کیے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس 25 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر

سماعت کے دوران بلوچستان بار کے وکیل امان اللہ کنرانی نے دلائل دیے کہ عدالت یہ بھی مد نظر رکھے کہ ریکوڈک سے نکلنے والے سونے کا کتنا فائدہ پاکستان کو پہنچتا ہے جبکہ ریکوڈک معاہدے سے آج تک بلوچستان کو کچھ نہیں ملا، بیرک گولڈ کی پوری دنیا میں اجارہ داری ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عالمی عدالت کا پاکستان پر عائد جرمانہ نیوکلیئر بم ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے سے اثر انداز ہوسکتا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 10 ارب کا جرمانہ کسی صوبائی ادارے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے خلاف ہے۔

سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر مزید سماعت پیر (7 نومبر) تک ملتوی کر دی۔

’ریکوڈک صدارتی ریفرنس کا پس منظر‘

یاد رہے کہ ڈان اخبار کی 19 جولائی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کینیڈا کی مائننگ فرم بیرک گولڈ کارپوریشن کو توقع ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، بلوچستان میں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ منصوبے میں عالمی ثالثی کے تحت 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راستہ بناتے ہوئے عدالت سے باہر کیے گئے اس کے 6 ارب ڈالر کے تصفیے کی منظوری دے گی۔

مزید پڑھیں: ‏صدر مملکت نے ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر دیا

اس سے قبل 21 مارچ 2022 کو پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا تھا، معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کا جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

19 جولائی 2022 کو وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست سے ریکوڈک گولڈ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔