حکومتِ سندھ کا ہجوم کے تشدد سے جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے 50 لاکھ امداد کا اعلان
کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں ہجوم کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے 2 افراد کے لواحقین کے لیے حکومتِ سندھ نے 50 لاکھ روپے امداد کا اعلان کرتے ہوئے اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دے دی۔
وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا، اجلاس میں انہیں گزشتہ ہفتے ہونے والے واقعے پر بریفنگ دی گئی۔
واضح رہے کہ 28 اکتوبر کو کچھ شرپسندوں نے یہ افواہ پھیلائی تھی کہ دونوں افراد بچوں کو اغوا کرنے کے ارادے سے علاقے میں گھوم رہے ہیں، جس کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے دو افراد کو مار مار کر ہلاک کر دیا اور ان کی گاڑی کو بھی نذر آتش کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: موبائل کمپنی کے ملازمین کو تشدد کرکے قتل کرنے کے الزام میں 34 افراد گرفتار
سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) غلام نبی میمن نے آج اجلاس کو بتایا کہ جاں بحق ہونے والے افراد کی شناخت ٹھٹھہ کے رہائشی ایمن جاوید اور نوشہرہ فیروز کے اسحٰق مہر کے نام سے ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ مچھر کالونی میں موبائل فون ٹاور کے اینٹینا اور سگنل کا معائنہ کرنے جا رہے تھے لیکن رہائشیوں نے انہیں اغواکار سمجھ کر قتل کر دیا۔
انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ اس کیس میں اب تک 15 مشتبہ افراد کو شناخت کرکے گرفتار کیا جاچکا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جنوبی عرفان علی بلوچ نے ہفتے کو ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ واقعے کے مقدمے میں 15 ملزمان اور 200 سے زائد نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
آج کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ان 15 کے علاوہ متعدد دیگر افراد کو بھی انسدادِ دہشت گردی کے تحت قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
سندھ پولیس کے سربراہ نے اجلاس کو بتایا کہ اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے، اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔
آئی جی کی بریفنگ کے بعد وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس قسم کے واقعات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا، قاتلوں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا، مچھر کالونی کا واقعہ اور ہجوم کے ہاتھوں دیگر انفرادی لوگوں کا قتل عوام پر پولیس کے اعتماد کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: اغوا کے خوف پر عوام نے موبائل فون کمپنی کے 2 ملازمین کو تشدد کرکے ہلاک کردیا، پولیس
وزیراعلیٰ نے زور دیا کہ ہمیں قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پولیس پر عوام کا اعتماد بحال ہو اور ہجوم کی جانب سے اس قسم کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
اس حوالے سے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں سندھ کے وزیر برائے توانائی امتیاز شیخ، کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب، وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی صادق علی میمن، آئی جی سندھ اور سیکریٹری برائے داخلہ شامل ہیں، ان سے اس معاملے پر تجاویز جمع کروانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
دوسری جانب تشکیل کردہ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کیا اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ‘موب منیجمنٹ پولیس فورس’ (ہجوم کو سنبھالنے کے لیے پولیس فورس) کا قیام عمل میں لانا چاہیے یا نہیں۔
واقعے کا پسِ منظر
خیال رہے کہ 28 اکتوبر کو کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں عوام نے تشدد کرکے موبائل نیٹ ورک کمپنی کے 2 ملازمین کو ہلاک کردیا تھا جن کے بارے میں افواہ پھیلی تھی کہ وہ اغوا کار ہیں۔
کیماڑی کے سینئر سپرنٹڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) فدا حسین جانوری نے بتایا تھا کہ مقتولین بظاہر اینٹینا اور سگنل چیک کرنے کے لیے مچھر کالونی گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: اورنگی ٹاؤن میں مشتعل شہریوں کے تشدد سے 2 ڈاکو ہلاک
ایس ایس پی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ وہ علاقے میں اپنی گاڑیوں پر جارہے تھے، ان کے پاس مختلف ڈیوائسز تھیں، کچھ شرپسند عناصر نے افواہ پھیلائی کہ یہ اغوا کار ہیں اور بچوں کو اغوا کرنے کے لیے علاقے میں ڈیوائسز کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں علاقے میں تقریباً 500 سے 600 لوگ جمع ہوگئے اور انہیں پتھروں اور دیگر سخت چیزوں سے مارنا شروع کردیا۔
ایس ایس پی فدا حسین جانوری نے بتایا کہ پولیس ٹیم پہلے ہی علاقے میں موجود تھی اور پولیو ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کر رہی تھی، وہ واقعے کی اطلاع ملنے کے 10 سے 15 منٹ میں موقع پر پہنچ گئی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی، تاہم دو افراد شدید زخمی ہونے کے بعد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ جو لوگ اس واقعے میں ملوث ہیں، ان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی جائے گی اور عینی شاہدین کی مدد سے ان کی شناخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
دوسری طرف پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) جنوبی عرفان علی بلوچ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کیماڑی کے ایس ایس پی کو ہدایات جاری کیں کہ وہ خود اس معاملے کی انکوائری کریں۔
مزید پڑھیں: کراچی: مشتعل ہجوم کے ہاتھوں 2 مشتبہ 'ڈاکو' ہلاک
بیان میں بتایا گیا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد موبائل فون کمپنی کے ملازمین تھے۔
بعد ازاں پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے ڈان ڈاٹ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ جاں بحق ہونے والے دونوں افراد کا پوسٹ مارٹم مکمل کرلیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے دو افراد کی لاشیں سول ہسپتال منتقل کی گئی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ جب لاشیں ہسپتال لائی گئیں تو ان کے جسم پر شدید زخم تھے اور وہ ہلاک ہو چکے تھے، ان کے سر پر متعدد فریکچر تھے۔
ڈاکٹر سمعیہ سید نے کہا کہ ان کے پورے جسم پر شدید اور مختلف سائز کے متعدد زخموں کے نشانات تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے چہروں پر زخموں کے نشانات تھے اور وہ سوجے ہوئے تھے۔