پاکستان

پریس کانفرنس میں اتنے جھوٹ ہیں، پوری بات اداروں کی شرمندگی کا باعث بنے گی، عمران خان

یہ انتہائی بے وقوفانہ پریس کانفرنس تھی، جواب دے کر اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہتا، چیئرمین تحریک انصاف کا انٹرویو

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس سچ کے نام پر اتنے جھوٹ اور آدھے سچ ہیں اور اتنی چیزیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی گئی ہیں کہ اگر پوری بات بتاؤں تو ان کے لیے بہت شرمندگی کا سبب بنے گی۔

عمران خان نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ایس آئی سربراہ کی ڈی جی آئی ایس آر کے ہمراہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو انہوں نے پریس کانفرنس کی ہے اس میں سچ کے نام پر اتنے جھوٹ اور آدھے سچ ہیں اور اتنی چیزیں سیاق و سباق سے ہٹ کر لی ہوئی ہیں کہ ہم نے اسے پیشکش کی لیکن کیا بتایا کہ کس وقت ایکسٹینشن کی پیشکش کی تھی، اگر پوری بات بتائیں تو ان کے لیے بہت شرمندگی کا سبب بنے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ پریس کانفرنس بڑی بدقسمتی ہے، کبھی آئی ایس آئی چیف اس طرح کی پریس کانفرنس نہیں کرتا اور میں ایک، ایک پوائنٹ کر کے اس کا جواب دے سکتا ہوں لیکن اس سے فوج کو بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، میں اگر اپنا موقف دوں گا تو یہ ان کے لیے بڑی شرمندگی کا باعث ہو گا لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے فوج کے ادارے کو نقصان پہنچے کیونکہ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ فوج کمزور ہو، اس کے بعد پاکستان کمزور ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی بے وقوفانہ پریس کانفرنس تھی، میں اس کا جواب دے کر اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہتا۔

لانگ مارچ کے مقاصد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اس سے ہمارا ایک ہی مقصد آزاد اور شفاف انتخابات ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں وہ حکومت ہو جسے پاکستان کے عوام منتخب کریں، حکومت الیکشن سے آئے آپشن سے نہ آئے۔

انہوں نے موجودہ اتحادی حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو حکومت آئی ہے یہ انہوں نے پیسے خرچ کرکے، ہارس ٹریڈنگ کر کے، لوگوں کے ضمیر خرید کر بنائی ہے، ان کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ انہوں نے اپنے کرپشن کے کیسز ختم کرنے ہیں کیونکہ ان پر 1100ارب کے کرپشن کیسز ہیں اور یہ آئے ہی اسی لیے تھے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انہوں نے معیشت ڈبو دی، ہماری معیشت تباہ ہو گئی، آج پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے، ہم آئے تھے تو یہ دیوالیہ کر کے گئے تھے، اس کے بعد اب آ کر انہوں نے اپنے کرپشن کیسز ختم کیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن ہوں، یہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو جس کی وجہ سے پوری معیشت تباہ ہوئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس مارچ کا مقصد صرف الیکشن ہیں لیکن میری تحریک حقیقی آزادی کی ہے، وہ تحریک یہ ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہوں، کوئی باہر سے ہمیں حکم نہ دے کہ ہم ادھر جا کر لڑیں اور 80ہزار جانیں گنوا دیں، روس سے سستا تیل مل رہا ہو جو ہندوستان لے رہا ہے لیکن وہ کہیں کہ پاکستان کو اجازت نہیں ہے، میں غلام نہیں ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا میں قانون کی حکمرانی چاہتا ہوں، یہاں جنگل کا قانون ہے، ہمارے لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور ان پر جیل میں جنسی تشدد کیا جاتا ہے اور لوگ ان کا نام لینے سے ڈرتے ہیں، اس کے علاوہ صحافیوں کے ساتھ جو کیا گیا، اے آر وائے کو بند کیا گیا، جو ہمارے حق میں لکھتا ہے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سوشل میڈیا کارکنوں کو اٹھا کر مارا جاتا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پھر یہ جو ارشد شریف کا واقعہ ہوا ہے، یہ ایسے ملک میں ہوتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی۔

عمران خان نے کہا کہ ارشد شریف نے ہائی کورٹ کے جج کو خط لکھا، صدر مملکت کو خط لکھا، مجھے کہا کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ وہ اس رجیم چینج سازش کو بے نقاب کررہا تھا، اس کو تحفظ نہیں ملا اس کا مطلب ہے کہ طاقتور قانون سے بالاتر تھے۔

ایک اور سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ ارشد شریف نے مجھ پر بھی بہت تنقید کی ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی، ارشد شریف ہی نہیں بلکہ دیگر صحافیوں کو بھی انہوں نے بے عزت کیا جن میں عمران ریاض، ایاز امیر اور سمیع ابراہیم جیسے صحافی شامل ہیں، صابر شاکر ملک چھوڑ کر چلا گیا، اس کو بھی خطرہ تھا تو وہ ملک چھوڑ کر گیا، یہ ساری علامات قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں این آر او کا قانون نہیں ہے کہ آپ چوری کریں اور معافی لے لیں لہٰذا حقیقی آزادی کی تحریک تو چلتی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی نے پریس کانفرنس میں تشدد کرنے والے دو لوگوں کے نام بتائے ہیں، یہ دو لوگ جب سے آئے ہیں یہاں دہشت کا راج ہے، صحافیوں کو دھمکیاں، سوشل میڈیا رضاکاروں مارنا، ڈرانا دھمکانا، اس کے علاوہ شہباز گل، اعظم سواتی اور جمیل فاروقی پر دوران حراست تشدد انہی کے دور میں ہوا، سب کو پتا ہے لیکن لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ ہم جنرل باجوہ کو کہہ رہے ہیں کہ آپ نے بلاول کے کہنے پر کراچی کا ایک سیکٹر انچارج تبدیل کیا تھا، اب اعطم سواتی نے جو کہا ہے تو اس پر ایکشن لیں کیونکہ یہ جو کررہے ہیں وہ کس مہذب معاشرے میں ہوتا ہے کہ ایک 75سالہ سینیٹر کو آپ ننگا کر کے اسے ذلیل کریں، اس کے پوتے پوتیوں کے سامنے اسے مارتے ہیں، یہ کون سے قانون میں لکھا ہوا ہے۔انہوں نے ان دو افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر جنرل باجوہ ہماری فوج کی ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں اس پر فوری ایکشن لینا چاہیے۔

آزادی مارچ پر دہشت گرد حملے کے خطرے کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم چوروں کی غلامی قبول کر لیں، ان چوروں کی غلامی سے مر جانا بہتر ہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ میں حکومت میں اس لیے نہیں آنا چاہتا کہ اسٹیبلشمنٹ مجھے قبول کرتی ہے، 2018 کے الیکشن میں ہمیں کسی نے نہیں جتایا تھا، اسی لیے جب انہوں نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو ہم نے کہا کہ الیکشن کھول دو اور انہیں چیلنج کیا، تو ہم نے تو دھاندلی نہیں کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس ملک میں آزاد اور شفاف الیکشن چاہتا ہوں، میں کرکٹ کا وہ کپتان ہوں جو نیوٹرل امپائر لے کر آیا، میں امپائر ساتھ ملا کر جیتنے والا کپتان نہیں۔