پاکستان

نور مقدم کیس میں ممکنہ گواہوں کو ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا، وکیل

گھریلو ملازمین اور دیگر افراد کو اس کیس میں ملزم نامزد کیا گیا، انہیں ممکنہ گواہ کے طور پر پیش کیا جانا تھا، عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کو ظاہر جعفر کے وکیل نے بتایا کہ نور مقدم قتل کیس میں پولیس نے ممکنہ گواہوں کو ملزم کے طور پر ملوث کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف دائر اپیل اور مقتولہ کے والد شوکت مقدم کی جانب سے مرکزی ملزم کے والدین کی بریت کے خلاف دائر ایک اور اپیل پر سماعت کی۔

وکیل دفاع عثمان کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے علاوہ ان کے باورچی اور دیگر افراد کو بری کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: کب، کیا ہوا؟

انہوں نے کہا کہ ظاہر جعفر اور گھریلو ملازمین کو ٹرائل کورٹ نے مجرم قرار دیا تھا اور ظاہر جعفر کے والدین کو مجرم قرار دینے کی اپیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ قتل کے وقت اسلام آباد میں موجود بھی نہیں تھے۔

وکیل کے مطابق پولیس نے گھریلو ملازمین اور دیگر افراد کو اس کیس میں ملزم کے طور پر نامزد کیا جب کہ انہیں ممکنہ گواہ کے طور پر پیش کیا جانا تھا۔

ثبوت کے طور پر پیش کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کے بارے میں وکیل نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ نے الیکٹرانک شواہد کے اعتراف کے لیے طریقہ کار طے کیا تھا جس کا اس کیس میں اطلاق نہیں کیا گیا۔

ظاہر جعفر کے مالی جان محمد کے وکیل ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ بھی اپنے مؤکل کی بریت کی درخواست پر دلائل دینا چاہتے تھے، تاہم عدالت نے ریمارکس دیے کہ عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ کی جانب سے اپنا کیس ختم کرنے کے بعد دیگر وکلا اپنے دلائل کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کے لرزہ خیز قتل کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی **گئی**

اس کے بعد اس معاملے پر مزید سماعت 9 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ رواں برس فروری میں عدالت نے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی اور دو شریک ملزمان محمد افتخار اور جان محمد کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی جو جعفر کے گھر کے دونوں گھریلو ملازم تھے۔

افتخار اور محمد، جو بالترتیب چوکیدار اور مالی کے طور پر کام کر رہے تھے، جنہیں جرم کی حوصلہ افزائی میں مدد کرنے پر سزا دی گئی۔

تاہم ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کے ساتھ ساتھ تھراپی ورکس کے ورکرز کے علاوہ ظاہر جعفر کی رہائش گاہ کے خانساماں جمیل احمد کو عدالت نے بری کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

خیال رہے کہ 20 جولائی 2021 کو 27 سالہ نور مقدم کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کے گھر میں قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد ظاہر جعفر کو حراست میں لیا گیا تھا۔

جیسے ہی مقتولہ عصمت دری اور قتل کی ہولناک تفصیلات سامنے آئیں، عوام نے متاثرہ لڑکی کے والد کے مطالبے کا پر زور ساتھ دیا جنہوں نے اپنی بیٹی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا تھا۔