طالبان کے ساتھ بات چیت کیلئے پاکستان یا کسی تیسرے ملک کی ضرورت نہیں، امریکا
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے کہا ہے کہ امریکا کو افغان طالبان کے ساتھ بات چیت میں سہولت کے لیے پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی ضرورت نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تھامس ویسٹ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان افغان طالبان کے ساتھ بات چیت میں سہولت فراہم کر سکتا ہے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ’سچ پوچھیں تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں طالبان کے ساتھ رابطے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کسی تیسرے ملک کی ضرورت ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی جانب سے افغانستان کیلئے او آئی سی کے اقدامات کا خیر مقدم
انہوں نے کہا کہ ’میں طالبان کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہوں، امریکی حکومت میں میرے اور بھی ساتھی ہیں جو طالبان کے ساتھ رابطوں میں مصروف عمل ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ بات چیت براہ راست ہونی چاہیے، مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں کسی تیسرے ملک کی ضرورت ہے‘۔
’وائس آف امریکا‘ کی اردو نشریاتی سروس کو ایک انٹرویو میں تھامس ویسٹ نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا کہ امریکا کو افغانستان تک پہنچنے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سفارتی سطح پر اس حوالے سے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ طالبان دہشت گردی سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کریں اور افغان عوام کو حقوق فراہم جو وہ فی الحال پوری طرح سے نہیں کر رہے ہیں‘۔
تھامس ویسٹ نے کہا کہ ’افغان طالبان کو اپنے وعدوں کو پورا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے پوری مسلم دنیا کا افغانوں، افغان خواتین، علمائے کرام اور طالبان کے ساتھ مصروف عمل ہونے میں ناقابل یقین حد تک اہم اور قابل اعتبار کردار ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان نے امریکا اور دیگر سابق حریف ممالک سے تعلقات کی خواہش ظاہر کردی
انہوں نے بتایا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سفرا انڈونیشیا، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔
امریکا کو پاکستان کے راستے افغانستان تک رسائی کی ضرورت سے متعلق سوال پر امریکی عہدیدار نے کہا کہ ’اگست 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد ہم نے خطے میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی صلاحیتیں دوبارہ ترتیب دی ہیں کہ دہشت گرد دوبارہ کبھی امریکا یا ہمارے اتحادیوں کے لیے خطرہ نہ بنیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’رواں برس کے آغاز میں کابل میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاکت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے پاس امریکیوں کی حفاظت کی صلاحیت موجود ہے‘۔
تھامس ویسٹ نے بتایا کہ انہوں نے اسلام آباد میں اپنے 3 روزہ قیام کے دوران افغانستان میں مشترکہ مفادات کے حوالے سے اہم شریک ریاست کے حکام کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت سے متعلق حالیہ بیان کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس سوال کے جواب میں میرے پاس آپ کے لیے مزید کچھ کہنے کے لیے نہیں ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا، طالبان کا رابطے جاری رکھنے پر اتفاق
امریکی کی جانب سے کابل میں ایمن الظواہری کے خلاف ڈرون حملے میں پاکستان کے کردار سے انکار نہ کیے جانے سے متعلق سوال پر تھامس ویسٹ نے محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’ایمن الظواہری پر حملہ اور طالبان کا ایمن الظواہری کو پناہ دینا دوحہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی‘۔
انہوں نے تصدیق کی کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں نے رواں ماہ پہلی بار دوحہ میں ملاقات کی اور اس بات کو یقینی بنانے کے حوالے سے گفتگو کی کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’لہٰذا ہم اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ عملی طور پر بات چیت جاری رکھیں گے‘۔