پاکستان

عمران خان کی نااہلی کے بعد پی ٹی آئی کو سخت قانونی جنگ کا سامنا

فیصلے کے خلاف اپیل اس فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی ملنے کےبعد ہی دائر کی جاسکتی ہے جس پر الیکشن کمیشن کے تمام اراکین کے دستخط موجودہوں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اپنے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے بعد سخت قانونی جنگ کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن عمران خان کو سیشن جج کی عدالت میں ایک اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ الیکشن کمیشن نے تحائف چھپانے سے متعلق جھوٹے بیانات جمع کرانے پر ان کے خلاف شکایت بھیج دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا

پی ٹی آئی کے لیگل ونگ کے ایک رکن کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے اسی طرح کے منفی فیصلے کا خدشہ تھا اس لیے قانونی ٹیم نے اس حوالے سے ایک قبل از وقت درخواست کا مسودہ سینیٹر سید علی ظفر کی سربراہی میں تیار کرلیا تھا۔

تاہم پی ٹی آئی کو پہلے اس درخواست کے قانونی جائزے کا مرحلہ عبور کرنا ہوگا، درخواست پر لگایا جانے والا پہلا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے حتمی فیصلے کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کا مناسب فورم سپریم کورٹ ہے۔

درخواست پر فوری سماعت میں ایک اور رکاوٹ الیکشن کمیشن کے تحریری حکم کی عدم موجودگی ہوگی، جس پر بینچ کے پانچوں ارکان کے دستخط ہونا باقی ہیں کیونکہ ان میں سے ایک رکن بیماری کی وجہ سے غیرموجود تھے۔

پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین کا الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ یہ فیصلہ جلد بازی میں جاری کیا گیا اور الیکشن کمیشن نے بینچ کے بیمار رکن کی واپسی کا انتظار نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: صداقت و امانت کا بت پاش پاش ہوگیا، سندیافتہ چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، حکمراں اتحاد

بظاہر یہ تکنیکی پہلو عمران خان کو بروقت فیصلے کو چیلنج کرنے سے روک سکتا ہے کیونکہ ایک مناسب اپیل فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی ملنے کے بعد ہی دائر کی جا سکتی ہے جس پر تمام اراکین کے دستخط موجود ہوں۔

تاہم پارٹی کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اس معاملے کا الیکشن کمیشن کے زیرسماعت ہونا ایک ایسی قانونی کارروائی تھی جو اس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔

پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے ایک سینئر رکن ایڈووکیٹ فیصل حسین نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کریں گےکیونکہ عمران خان کی نااہلی کا حکم دینے کے لیے الیکشن کمیشن متعلقہ فورم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ کمزور ہے اور برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ اس میں خامی ہے، الیکشن کمیشن نے اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کی، اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ عمران خان کی این اے 95 میانوالی کی سیٹ پر نااہلی کے حوالے سے جاری ہوا یا ان حلقوں کے حوالے سے جہاں عمران خان نے حال ہی میں ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، دیگر نشستوں کے حوالے سے کیا فیصلہ ہوگا؟ کیا الیکشن کمیشن اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو رد کر سکتا ہے؟، پی ٹی آئی ان تمام معاملات پر ہائی کورٹ سے رجوع کرے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی کارکنوں کو احتجاج ختم اور مارچ کی تیاری کرنے کی ہدایت

الیکشن کمیشن نے جھوٹا بیان اور غلط ڈکلیئریشن پر عمران خان کے خلاف سمری ٹرائل کے لیے سیشن جج کو کیس بھیجا ہے لیکن ایڈووکیٹ فیصل حسین کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کو عمران خان کو نااہل قرار دینے سے پہلے ان کارروائیوں کے نتائج کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔

جہاں تک رکن اسمبلی کو نااہل قرار دینے سے متعلق الیکشن کمیشن کے اختیار کا تعلق ہے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کو ڈی سیٹ کیے جانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ہوا ہے اور ان کیس فی الحال سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

عدالت میں فیصل واوڈا کے وکیل کا زور الیکشن کمیشن کے اس دائرہ اختیار پر تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 یا 63 کے تحت کوئی اعلامیہ جاری کرسکے، اس دلیل کے جواب میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست تھا۔

عدالت کے حکم نامے میں کہا گیا کہ ’الیکشن کمیشن نے حبیب اکرم کے معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے واضح طور پر کیے گئے اعلانات کو محض لاگو کیا ہے، اس کے نتائج پر صرف عدالت عظمیٰ ہی غور اور اس پر کارروائی کر سکتی ہے، الیکشن کمیشن کا حکم صرف حبیب اکرم کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آئین اور قانون کے تحت لاگو کیا گیا ہے‘۔

مزید پڑھیں: ’اب انقلاب کا امتحان ہے‘، عمران خان کی نااہلی پر صحافی برادری کا ردِعمل

لیکن ایڈووکیٹ فیصل حسین نے کہا کہ فیصل واوڈا کا کیس عمران خان سے مختلف ہے، الیکشن کمیش نے آرٹیکل 62 (ون)(ایف)کے تحت فیصل واوڈا کو ڈی سیٹ کیا تھا، اس آئینی شق کا تعلق رکن اسمبلی کی اہلیت سے ہے، تاہم عمران خان کو آرٹیکل 63 (ون)(پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جو کسی رکن پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق ہے۔

دونوں میں فرق یہ ہے کہ آرٹیکل 62 کے تحت الیکشن کمیشن کسی کو کاغذات نامزدگی میں جھوٹا ڈیکلریشن جمع کرانے پر نااہل قرار دے سکتا ہے جبکہ آرٹیکل 63 کے تحت عمران خان کو رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد ڈیکلریشن جمع کرانے پر معزول کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے ایک حالیہ فیصلے میں محمد سلمان نعیم کی نااہلی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’پارلیمنٹ نے آرٹیکل 62، 63 کے تحت کسی انتخابی امیدوار یا رکن پارلیمنٹ کی اہلیت یا نااہلی پر غور کرنے کا دائرہ اختیار الیکشن کمیشن کو نہیں دیا‘۔

سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کاشف علی ملک کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کو اپنے فیصلے میں اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ آیا الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 63(1)(پی) کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے ایک موجودہ رکن کو نااہل قرار دینے کا اعلامیہ جاری کرنے کا اہل ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نااہلی کے جوہڑ میں کھڑے نواز شریف اور عمران خان!

تاہم انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 190(2) کے تحت الیکشن کمیشن بدعنوانی کے مبینہ اقدامات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے لیے سیشن جج کو شکایت بھیجنے کا مجاز ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو ہر سال الیکشن کمیشن کے سامنے جمع کروائے جانے والے ڈکلیئریشن میں توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات چھپانے کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔

سلمان نعیم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا عمران خان کی نااہلی کے معاملے پر قابل اطلاق ہونے کے حوالے سے کاشف علی ملک نے کہا کہ اس معاملے پر اطلاق فیصل واوڈا کی اپیل پر فیصلے کا ہو سکتا ہے جو ابھی تک سپریم کورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے زیر التوا ہے۔

ترامیم کے بعد جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا بل دوبارہ قومی اسمبلی سے منظور

نیند کی کمی بیک وقت دو بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے، تحقیق

ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر کو کانگریس کی توہین پر 4 ماہ کی سزا