نااہلی کے جوہڑ میں کھڑے نواز شریف اور عمران خان!
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے ملک بھر میں گھیراؤ، جلاؤ اور احتجاج شروع ہوچکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی طرح تحریک انصاف پر بھی جمعے کا دن بھاری ثابت ہوا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کو اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں فیصلہ ان کے خلاف آئے گا، اسی لیے انہوں نے حالیہ دنوں میں الیکشن کمیشن کے چیئرمین کو اپنا خاص ہدف بنا لیا تھا۔
تحریک انصاف کی جانب سے موجودہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین کے خلاف 2 ریفرنس بھی دائر کیے گئے تھے جن میں سے ایک واپس لے لیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک ریفرنس 18 اکتوبر یعنی صرف 3 روز پہلے بھیجا گیا تھا تاہم عمران خان کی یہ حکمت مؤثر ثابت نہیں ہوسکی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ عمران خان کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انہیں آئین کے آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ مختصر فیصلے میں عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستان کے 3 وزرائے اعظم اور کئی اراکینِ اسمبلی کو نااہل کیا گیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو سپریم کورٹ نے جبکہ عمران خان کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا۔
25 اپریل 2012ء کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے متعلق اسپیکر کی رولنگ کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن ان کی نااہلی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔
اس معاملے کا آغاز سپریم کورٹ کی جانب سے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو این آر او مقدمے میں عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیے جانے سے ہوا تھا۔
پھر 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیرِاعظم پاکستان نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ 5 رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف اب سے وزیرِاعظم نہیں رہے۔ عدالت نے نیب کو نواز شریف کے علاوہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز اور کیپٹن صفدر کو شاملِ تفتیش کرنے اور ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ احتساب عدالتیں ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ کے اندر کریں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج کو تعینات کیا جائے گا جو قومی احتساب بیورو کی ان ریفرنس کی کارروائی کی نگرانی کریں گے۔
اور اب 21 اکتوبر 2022ء کو الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دے دیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان اب رکنِ قومی اسمبلی نہیں رہے اور عمران خان کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب درست نہیں تھا۔ عمران خان کرپٹ پریکٹس میں ملوث رہے ہیں، ان کی قومی اسمبلی کی نشست کو خالی قرار دیا جاتا ہے‘۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ عمران خان کی نااہلی کے فیصلے بعد کچھ مزید سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کا انعقاد کروانا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کا فیصلہ آئینی اختیار سے تجاوز ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے توشہ خانہ کیس میں سماعت کے دوران اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے، جب تک ہائی کورٹ کی نگرانی نہ ہو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا‘۔
بیرسٹر علی ظفر نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ایسا نہیں ہوسکتا کہ 10 برس پرانی چیز اٹھا کر سوال کردیا جائے۔ یہ ایک سیاسی کیس ہے اور مخالفین اس پر پریس کانفرنسز بھی کر رہے ہیں‘۔
تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر خالد اسحٰق نے کہا کہ ریفرنس میں صرف ایک سوال کیا گیا تھا لیکن عمران خان نے اپنے جواب میں اس سوال کا جواب ہی نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف اپنے پاس رکھے لیکن انہوں نے توشہ خانہ سے وصول تحائف درست وقت میں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 28 جولائی 2017ء کو جب پانامہ کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے 21 جولائی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں وزیرِاعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ نواز شریف وزارتِ عظمی کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت کے لیے بھی نااہل قرار دیے گئے تھے۔
قانونی حلقوں میں یہ سوال بھی زیرِ بحث ہے کہ کیا عمران خان بھی نواز شریف کی طرح پارٹی قیادت کے لیے نااہل قرار پائیں گے؟ تحریک انصاف کے حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف 2 ریفرنس دائر کروا رکھے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی متنازعہ ہیں، اس لیے ان کے فیصلے میں جانبداری موجود ہے تاہم فیصلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ 5 ارکان کا متفقہ فیصلہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف جوڈیشل کونسل میں برطرفی کا ریفرنس دائر کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے ایک روز بعد 3 اگست کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، جسے بعد ازاں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے واپس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں مزید نکات شامل کیے جائیں گے۔
18 اکتوبر 2022ء کو دائر کردہ نئے ریفرنس میں پی ٹی آئی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ جانبدار ہیں۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ مبیّنہ جانبداری کے باعث سکندر سلطان راجا عہدے کے اہل نہیں ہیں۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتیں ملزمان کو ریلیف دیتی رہی ہیں۔ ضابطہ اخلاق کی جب بھی خلاف ورزیاں ہوئیں تو الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف عدالتوں نے سیاستدانوں کو ریلیف دیا۔ عمران خان بھی اپنے مخالفین پر یہی جملے کستے تھے کہ ’یہ اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں‘۔
یہاں پر یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ ہفتے ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے تھے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کا ماہر ادارہ ہے اور اسے اپنا کام کرنا چاہیے اور عدالتوں کو غیر ضروری قسم کے اسٹے دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کی اس آبزرویشن کے بعد کیا عمران خان کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ریلیف مل سکے گا؟
سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کے رہنماؤں کے کیسز ختم ہو رہے ہیں لیکن عمران خان مسلم لیگ (ن) کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اب عمران خان اور نواز شریف دونوں ’نااہلی‘ کی ڈور میں بندھ گئے ہیں اور آئندہ انتخابات سے پہلے دونوں کو عدالتوں کے ذریعے ہی نااہلی کی اس ڈور سے نکلنا ہے۔
عمران خان اور نواز شریف اس وقت بالترتیب توشہ خانہ کیس اور پانامہ کیس کی وجہ سے نااہلی کے کیچڑ زدہ جوہڑ میں کھڑے ہیں جہاں سے انہیں باہر نکلنے کے لیے کوئی لے دے کرکے ہی باہر آنا ہوگا۔ اس ساری بحث میں ایک دلچسب نکتہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے جس کے بعد دھند ختم ہونے میں مزید دقت محسوس نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے 4 اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ تاحیات نااہلی یعنی آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کالا قانون ہے۔
62 (ون) (ایف) کی تشریح میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ سیاستدانوں کی نااہلی 5 یا 10 سال کے لیے نہیں بلکہ تاحیات ہوگی۔ ساڑھے 4 سال بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ہی لکھے فیصلے پر بیان دیا کہ یہ ایک ڈریکونین لا (Draconian law) ہے۔
چیف جسٹس کے اس بیان کے بعد اب ایک نئی بحث چل پڑی ہے کیونکہ سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق مدت کا تعین اس وقت کیا گیا تھا جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے اس آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاستدانوں کی نااہلی 5 یا 10 سال کے لیے نہیں بلکہ تاحیات ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے خود ہی تحریر کیا تھا کیونکہ وہ بھی اس بینچ کا حصہ تھے۔ اب یہ تبدیلی کیوں آئی اور اس کے نیا نتائج برآمد ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
سبوخ سید صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ گزشتہ 22 برس سے ملکی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے اہم اداروں کے ساتھ بطور صحافی اور محقق کام کررہے ہیں۔ صحافتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ شہید ذولفقارعلی بھٹو یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیوں سے بھی منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی پر اہم سیاسی، مذہبی اور سماجی موضوعات پر ’ابتدا‘ کے نام سے پروگرام بھی کرتے ہیں۔ ٹویٹر ہینڈل saboohsyed@ پر انہیں فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔