پاکستان

گزشتہ ہفتے بجلی کا بڑا بلیک آؤٹ پرانے کنیکٹرز کے باعث ہوا، وزارت توانائی

بحران کی پہلی وجہ کراچی کے نیوکلیئر پاور پلانٹس کے-2 اورکے 3 کے ٹاور نمبر 26 پر تین سال قبل کیا گیا عارضی اور غیر معیاری کام تھا، انکوائری کمیٹی

حکومت نے کہا ہے کہ کراچی میں دو میگا نیوکلیئر پاور پلانٹس کے ٹاور پر عارضی اور غیر معیاری کام، پرانے مٹیریل اور تحریف کیے گئے کنیکٹرز کی وجہ سے گزشتہ ہفتے تقریباً آدھے ملک کو 12 گھنٹے سے زیادہ بجلی سے محروم رکھنے والا بڑا بریک ڈاؤن ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت توانائی کے پاور ڈویژن نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے ایک بیان کہا کہ 13 اکتوبر کو بلیک آؤٹ کی پہلی وجہ کراچی کے نیوکلیئر پاور پلانٹس کے-2 اور کے 3 کے ٹاور نمبر 26 پر تین سال قبل یعنی 2019 میں کیا گیا عارضی اور غیر معیاری کام تھا۔

کمیٹی نے یہ بھی پایا کہ ترسیلی نظام کی خرابی نے 2019 میں استعمال کیے گئے سامان کے معیار اور اس پر کام کرنے والوں کی استعدد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت توانائی کا ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام مکمل طور پر بحال کرنے کا دعویٰ

پاور ڈویژن نے کہا کہ اس نے نوٹ کیا کہ استعمال ہونے والے کنیکٹر ٹرانسمیشن لائن کے لیے ڈیزائن نہیں کیے گئے تھے بلکہ ان میں تبدیلیاں کرکے اس عارضی انٹر کنیکشن کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

مکمل رپورٹ جاری کیے بغیر بیان میں انکوائری کمیٹی کے حوالے سے کہا گیا کہ ’پروجیکٹ ٹیم نے ٹاورز نمبر 26، 26-A اور 27 پر 25 سال پرانے خراب کنیکٹر استعمال کیے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2019 میں اس عارضی کام کی سنگینی اور جوہری پاور پلانٹس کی حساسیت کے باوجود مقررہ معیارات کے مطابق اس کی باقاعدہ مرمت اور دیکھ بھال نہیں کی گئی۔

پاور ڈویژن نے کہا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کر رہا ہے جنہیں انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: بجلی کی بندش کی وجہ قومی گرڈ میں حفاظتی نظام کی خرابی تھی

خرابی کے بعد یہ معلوم کرنے کے لیے کہ خرابی کی وجہ کیا تھی اور کیا اس سے بچا جا سکتا تھا، ملک کے نیشنلل گرڈ کو چلانے والی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے چار رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی کی قیادت اس کے ٹیکنیکل جنرل منیجر محمد مصطفیٰ نے کی اور اس میں جنرل منیجر انوار احمد خان اور چیف انجینئرز محمد اعجاز خان اور محمد زکریا بھی شامل تھے۔

کمیٹی کے نتائج ابتدائی رپورٹس کے مطابق ہیں کہ بریک ڈاؤن کی ابتدا 27 سال پرانی موجودہ لائنوں میں 1100 میگا واٹ کے دو بڑے جوہری پاور پلانٹس کے قریب اوور لوڈنگ کی وجہ سے ہوئی جس کی وجہ سے نئی لائنوں کی تکمیل میں تاخیر ہوئی، جو کہ ان دونوں پلانٹس سے پہلے تیار ہونی چاہیے تھیں۔

کے 2 اور کے 3 نیوکلیئر پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کو کراچی کے جنوب میں واقع این کے 1 جامشورو اور حب-جامشورو کی دو 500 کلو وولٹ ٹرانسمیشن لائنز کے ذریعے نکالا جا رہا تھا اور وہ پہلے ہی اوورلوڈ اور پرانی تھیں کیونکہ وہ 1995 میں شروع کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی فراہمی رات تک مکمل بحال کردیں گے، خرم دستگیر

پرانے کنیکٹرز کی خرابی نے نیوکلیئر پلانٹس کا پورا 2,200 میگاواٹ لوڈ حب جامشورو لائن پر منتقل کر دیا، جو اس اضافی بوجھ کو برقرار نہیں رکھ سکا۔

سسٹم آپریٹر نے جزوی بوجھ کو پورٹ قاسم مٹیاری لائن پر منتقل کرنے کی کوشش کی جسے بھی فوری طور پر فعال نہیں کیا جا سکا کیونکہ پورٹ قاسم پلانٹ پہلے ہی بند تھا۔

اس نے تقریباً 1,800 میگاواٹ کے کئی دوسرے پاور پلانٹس کو خود بخود بند کر دیا جس سے گتی-فیصل آباد تک 500 کے وی اور 200 کے وی لائنیں متاثر ہوئیں، اس کے علاوہ حیسکو، سیپکو، میپکو اور فیسکو کو بجلی کی سپلائی بند ہو گئی اور مٹیاری-لاہور 600 کے وی ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے کچھ حد تک لاہور تک بجلی کی فراہمی بند ہو گئی۔

پاور سیکٹر کے ماہرین نے کہا کہ این ٹی ڈی سی دنیا کے کسی دوسرے بجلی کے گرڈ کی طرح ایک اعلیٰ تکنیکی ادارہ ہے جسے قابل انجینئرز کے ذریعے چلایا جانا چاہیے جو حفاظتی اقدامات کی منصوبہ بندی کرتے، نظام کو مستحکم رکھتے اور تکنیکی مہارت کے ساتھ طلب اور رسد کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بجلی کے تعطل پر سندھ ہائیکورٹ میں سماعت، سربراہ کے-الیکٹرک کے وارنٹ گرفتاری جاری

ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنی جنرلسٹ کیڈرز کے کنٹرول میں رہی ہے اور 10 برسوں میں اس میں 13 مینیجنگ ڈائریکٹرز آئے ہیں۔

اس کے علاوہ ان میں سے 11 ڈائریکٹرز نان انجینئرز ہیں جن میں زیادہ تر پاور ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹریز ڈیپوٹیشن یا قائم مقام چارج کی بنیاد پر ہیں، جس نے ایسے منصوبوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کے تسلسل کو بری طرح متاثر کیا جن کو عملی جامہ پہنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔