پاکستان

نادرا کا ایک ماہ میں جنس کی تبدیلی کا ’رول 13 ون‘ ختم کرنے کا فیصلہ

ٹرانسجینڈر ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران نادرا کے وکیل نے بتایا کہ رول 13 ون کے خاتمے پر چیئرمین نادرا دستخط کرچکے ہیں۔

نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے وکیل بتایا ہے کہ نادرا ایک ماہ تک جنس کی تبدیلی کا رول 13 ون ختم کر رہا ہے، جس پر چیئرمین نادرا دستخط کرچکے ہیں۔

انہوں نے یہ بات وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کیس کی سماعت کے دوران بتائی۔

نادرا کے وکیل نے مزید کہا کہ معاملے کو آئندہ بورڈ اجلاس میں منظوری مل جائے گی، کوشش کریں گے کہ ایک ماہ میں بورڈ سے منظوری حاصل کرلی جائے۔

جسٹس قاسم شیخ نے کہا کہ اجلاس کا ایجنڈا اور میٹنگ منٹس کا جائزہ لے کر دیکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں سماعت، متعدد افراد کو فریق بننے کی اجازت

سماعت میں وزارت انسانی حقوق کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزراتوں کو شریعت کورٹ کا آڈر بھیج دیا گیا تھا، جس پر 5 سے 5 وزراتوں کا جواب آیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان جوابات کے مطابق وزرات انسانی حقوق میں کوئی ٹرانسجینڈر ملازم نہیں ہے بقیہ سب اداروں کو ہم نے جواب جمع کرانے کے لیے ریمائنڈر بھجیے ہیں۔

جسٹس قاسم شیخ نے کہا کہ ریمائنڈر پر ریمائنڈر بھیج رہے ہیں کیا کوئی عمل درآمد بھی کروانا ہے؟

وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت کو تجویز دی کہ صوبوں کو بھی نوٹس جاری کر دیں تاکہ صوبے بھی آپ کے سامنے پیش ہوں۔

مزید پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ پر شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا، وفاقی وزیرقانون

قائم مقام چیف جسٹس شریت کورٹ نے تجویز رد کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ وفاق کا ہے ابھی صوبوں کی ضرورت نہیں۔

سینیٹر مشتاق احمد کی پیروی کرنے والے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کیس میں بہت ساری درخواستیں دائر ہوئی ہیں، جینڈر اور صنف ایک ہی چیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن اور سنت میں کوئی فرق نہیں، کیا قرآن اور سنت جنس کی تبدیلی کریں گے؟

انہوں نے کہا کہ مرد اور عورت کا دائرہ کار الگ الگ واضح کیا گیا ہے، جنس اور صنف کا تعین علامات ہی ہیں یا کوئی اور بھی ہے، قانونی اور شرعی طور پر دیکھنا ہوگا کہ کیا کوئی خود اپنی جنس کا تعین کر سکتا ہے۔

عمران شفیق نے مزید کہا کہ ایکٹ میں ٹرانسجینڈر کا لفظ ہے مگر اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی۔

دلائل کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ایکٹ میں صرف ٹرانسجینڈر فرد کی تعریف کی گئی ہے کہ ٹرانسجینڈر وہ ہے جو دونوں صنف کا مالک ہو۔

یہ بھی پڑھیں: اسلامی نظریاتی کونسل نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی متعدد دفعات کو غیر شرعی قرار دے دیا

ایکٹ کے تحت کسی بھی ٹرانسجینڈر کو اختیار ہوگا کہ وہ خود سے اپنی صنف کا فیصلہ کر سکے جبکہ قران و سنت میں خود سے صنف کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں انٹر سیکس کا تعین کیا گیا ہے، اسلام صنف کی واضح علامات کی بنیاد پر مرد اور عورت کی کیٹیگری رکھتا ہے، خود سے صنف کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی قانون بھی خود سے صنف کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے عدالت میں کہا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ میں پہلی ترمیم میں نے جمع کروائی تھی، جس کے بعد دیگر سینیٹرز نے بھی ترامیم جمع کروائیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب میں نے ایک نیا بل سینیٹ میں پیش کیا ہے، جسے جائزے کے لیے کمیٹی کو بھجوایا گیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ آپ اپنے نئے بل کی کاپی بھی دے دیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس: ٹرانس جینڈر ترمیمی بل 2022 کمیٹی کے سپرد

ندیم کشکش نے کہا کہ ہمارے لیے بل میں خنصہ کا لفظ شامل کیا جائے جو سپریم کورٹ نے دیا تھا۔

شاہانہ عباس نے کہا کہ 2017 کے بعد ہم حج پر نہیں جا سکتے، میرا پہلا کارڈ مرد کی بنیاد پر بنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب میرے آئی ڈی کارڈ پر ’ایکس‘ لکھا ہے جس کے باعث حج پر نہیں جاسکتے، ایکٹ کے بعد ہم کسی عرب ممالک میں نہیں جا پارہے۔

اوریا مقبول جان نے کہا کہ میں نے اپنے تحری دلائل جمع کروا دیے ہیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئندہ سماعت پر اپنے دلائل دوں گا، ایسا تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم حقوق کے خلاف ہیں۔

بعدازاں وفاقی شرعی عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

ٹرانسجینڈر ایکٹ

یاد رہے کہ یہ قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے، خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح حسب معمول زندگی گزار سکتے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا، یہ درخواست اسلامی ماہر قانون ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں ’ہرمافروڈائٹ بچوں‘ کی آزادی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ بھیک مانگنے، ناچنے اور جسم فروشی کے بجائے ’باعزت طریقے‘ سے زندگی بسر کر سکیں۔

قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈر کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، جس کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص سزا کا حقدار ہوگا۔

گزشتہ ماہ وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ’اسلامی احکام کے منافی‘ قرار دینے کے لیے چیلنج کردیا گیا تھا اور اس کے بعد متعدد افراد نے کیس میں فریق بننے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2018 میں نافذالعمل ہونے والے اس قانون کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔